Time 15 جون ، 2025
بلاگ

ایران مشکل میں

دنیا ایک بار پھر اندھیرے کے دہانے پر ہے۔ ایران کی فضا میں جو بارود گرا، وہ صرف دھات کا ایک گولا نہیں تھا، بلکہ عہد شکنی کا جنازہ تھا۔ وہ حملہ جو اسرائیل نے کیا، اُس میں امریکہ کا خاموش سایہ ایک صدی کے ماتم کی طرح پھیلتا گیا جیسے کسی دغا باز دوست کی خاموشی، جو تماشا دیکھتا ہے مگر آنکھوں میں ہمدردی کی جھوٹی نمی لیے کمر تھپتھپاتا ہے۔ 

ڈونلڈ ٹرمپ، جو سیاست میں کاروبار کی زبان بولتا ہے، کہہ چکا تھا کہ ’’ایران کے پاس 60دن ہیں معاہدہ کرنے کے لیے، اور آج 61واں دن ہے‘‘۔ یہ جملہ محض ایک وقت کا تعین نہیں، بلکہ ایک قبر کی تاریخ پیدائش تھی وہی قبر جس میں سفارتکاری دفن ہوئی، اور جس پر اب صرف راکٹوں کی زبان بولی جاتی ہے۔

مشرقِ وسطیٰ کی زمین وہ افسانہ ہے جس پر ہر سامراجی قلم نے خون سے افسانے لکھے ہیں۔ ایران تہذیبوں کا تاجدار، شاعری اور فلسفے کی زمین جب بھی سر اٹھاتا ہے، کوئی نہ کوئی طوفان اسے جھکانے آ جاتا ہے۔ اور اب کی بار، یہ طوفان اسرائیل کی جانب سے آیا ہے، مگر اس کی پشت پر امریکہ کی خاموش اجازت کی سرگوشی صاف سنائی دی۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ٹرمپ کا الٹی میٹم مکمل ہوا اور اگلے ہی لمحے آسمان پر آگ برسنے لگی؟ کیا اسرائیل نے اس حملے کے لیے امریکہ سے کوئی اجازت نہ لی ہو گی؟ کیا دنیا کے سب سے حساس اور پیچیدہ خطے میں کسی بڑی کارروائی سے پہلے واشنگٹن بے خبر رہتا ہے؟ خاموشی، اکثر رضا مندی کی دوسری صورت ہوتی ہے۔

امریکہ جو خود کو انصاف، آزادی اور جمہوریت کا علمبردار کہتا ہے، اب صرف اپنے مفاد کے آئینے میں دنیا کو دیکھتا ہے۔ ٹرمپ کی زبان میں تہذیب کی چمک نہیں، صرف سودا گری کا غبار ہے۔ اس کے الفاظ میں دھمکیوں کی دھار ہے، اور اس کی خاموشی میں بھی ایک شور چھپا ہے۔ ایران پر حملہ صرف ایک ملک پر حملہ نہیں، بلکہ اُس آواز پر حملہ ہے جو اپنی خودمختاری کی بات کرے، جو سامراجی پالیسیوں سے سوال کرے، جو فلسطین کے حق میں بولے، جو اپنی ثقافت اور خودی کو بیچنے سے انکار کرے۔

ایران کی فضا میں جو شعلے اٹھے، وہ محض ایک فوجی تناؤ نہیں، بلکہ ایک تہذیب کی تذلیل تھی۔ اس قوم نے ہزاروں سالہ تاریخ میں نہ صرف علم و ادب کو جنم دیا، بلکہ ظلم کے خلاف مزاحمت کی مثالیں بھی قائم کیں۔ فردوسی سے لے کر خمینی تک، ایران نے ہر صدی میں ایک سوال کیا ہے: کیا ہم محض ایک زمین کا ٹکڑا ہیں، یا ہم ایک ضمیر بھی رکھتے ہیں؟ یہ اُس ضمیر پر حملہ ہوا ہے۔ اُس خاک پر بم گرا ہے جس پر کبھی حافظ کی غزلیں، خیام کی رباعیاں اور رومی کی معرفت برسوں تک چمکتی رہی۔

اسرائیل وہ ریاست ہے جو اپنے خوف میں ہر اُبھرتی ہوئی آواز کو دشمن سمجھتی ہے۔ مگر اس بار اس نے جو کیا، وہ صرف ایک ملک پر حملہ نہیں، بلکہ اُس عالمی ضمیر کے منہ پر طمانچہ تھا جو انصاف کے اصولوں پر خاموش بیٹھا ہے۔ اسرائیل نے یہ حملہ صرف اپنی سلامتی کے نام پر نہیں کیا۔ اس کے پیچھے امریکی اشیرباد کی وہ گرمی بھی تھی جو مشرقِ وسطیٰ میں ہمیشہ زخموں کو مزید سلگاتی آئی ہے۔ واشنگٹن کا سکوت، درحقیقت ایک اجازت نامہ ہے جو بارود میں لپٹا ہوتا ہے۔

اقوامِ متحدہ، جو کبھی عالمی ضمیر کی نمائندہ تھی، اب ایک بے حس، بے جان مجسمہ بن چکی ہے جیسے کسی قبرستان کے بیچ ایک پتھر، جس پر کوئی دعا بھی نہیں لکھی گئی۔ نہ کوئی قرارداد، نہ کوئی مذمت، نہ کوئی احتجاج۔ ہر جانب سناٹا، جیسے انسانیت ایک لمبے خواب میں جا چکی ہو۔ یورپ کی خاموشی، مسلم دنیا کا بکھرا ہوا ردعمل اور چین و روس کی مصلحت پسندانہ چپ، یہ سب ایک ایسی تصویر بناتے ہیں جس میں صرف ایران تنہا کھڑا ہے زخموں سے چُور، مگر جھکنے سے انکاری۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست میں اخلاقیات کی گنجائش نہیں۔ اس کا ہر بیان، ہر فیصلہ، ہر خاموشی ایک تجارتی معاہدے کی طرح ہوتی ہے کہ کتنے فائدے میں ہوں گے؟ کہاں سے ڈیل ملے گی؟ کس کا بازو مروڑ کر کس سے فائدہ اٹھایا جائے گا؟۔ ایران کو 60دن کا الٹی میٹم دے کر، اور 61ویں دن اسرائیل کی کارروائی پر خاموشی اختیار کر کے، ٹرمپ نے ثابت کیا کہ اس کی’’عظیم امریکہ‘‘ کی پالیسی دراصل دوسروں کے زخموں پر کھڑے ہونے کا نام ہے۔

ایران کی زمین پر جو راکٹ گرے، وہ صرف دھماکوں کی بازگشت نہ تھے۔ وہ عالمی ضمیر سے پوچھے گئے سوال تھے۔

کیا دنیا صرف طاقتوروں کی ہے؟

کیا قومیں صرف تب تک محفوظ ہیں جب تک وہ امریکہ کی مرضی کے مطابق چلیں؟

کیا مزاحمت، خودداری اور اصول پسندی جرم بن چکی ہے؟

یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب نہ واشنگٹن دے گا، نہ تل ابیب، نہ اقوام متحدہ۔ ان سوالوں کے جواب صرف تاریخ دے گی اور تاریخ کے قلم کی سیاہی وہ لہو ہو گا جو آج ایران کی خاک پر گرا ہے۔اور جب شفق کا رنگ لہو سے ملتا ہے، تو فضا میں صرف ایک دعا بلند ہوتی ہے:

’’خدا کرے کہ امن، کسی دن طاقت سے زیادہ دلکش ہو جائے…‘‘


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔