19 جون ، 2025
کسی کو کوئی غلط فہمی تھی تو اب دور ہو جانی چاہئے۔ 13 جون کو اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو اسے امریکہ کی مکمل تائید حاصل تھی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ دعویٰ کہ اسرائیلی حملے میں انکی تائید شامل نہیں تھی محض ایک دھوکہ تھا۔ اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کا خیال تھا کہ وہ چند دن کے اندر اندر ایران کی فوجی قیادت کا خاتمہ کر دینگے اور ایران کے عوام سڑکوں پر آکر حکومت کا خاتمہ کر دینگے۔
نیتن یاہو نے ایران میں اپنے مضبوط انٹیلی جینس نیٹ ورک کی مدد سے ایران کی فوجی قیادت اور ایٹمی سائنس دانوں کو تو آسانی سے نشانہ بنا لیا لیکن ان کے سیاسی اندازے غلط ثابت ہوئے۔ ایرانی عوام سڑکوں پر ضرور نکلے لیکن ’’مرگ بر اسرائیل‘‘ کا نعرہ بلند کرنے کیلئے سڑکوں پر نکلے۔
ایران نے ناصرف اسرائیل کیخلاف بھرپور مزاحمت کی بلکہ ایرانی میزائلوں نے اسرائیل کے ایئر ڈیفنس سسٹم کے ناقابل شکست ہونے کے تصور کو بھی چکنا چور کر دیا اور جب ایرانی میزائل تل ابیب میں گرنا شروع ہوئے تو ایک طرف تمام مسلم ممالک نے ایران کی حمایت شروع کردی تو دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ غصے میں آگ بگولا ہوگئے۔ ٹرمپ کینیڈا میں جی سیون ممالک کا اجلاس ادھورا چھوڑ کر واپس واشنگٹن آ گئے اور انہوں نے ایران کو دھمکی آمیز بیانات دینے شروع کر دیئے۔ ان بیانات نے ٹرمپ کی امن پسندی کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ایران کے رہبر علی خامنہ ای کو دھمکی دیکر اور غیر مشروط سرنڈر جیسا جارحانہ بیان جاری کرنے کے بعد ٹرمپ اس جنگ میں کود چکے ہیں۔ دوسری طرف چین نے ٹرمپ کے بیان کو جنگ کی آگ پر مزید پٹرول چھڑکنے کے مترادف قرار دیا ہے۔
ایران کیخلاف ٹرمپ کے جارحانہ بیانات کو امریکی کانگریس کے کئی ارکان نے مسترد کر دیا ہے کیونکہ کسی بھی ملک کیخلاف اعلان جنگ کے فیصلے کا اختیار امریکی صدر کے پاس نہیں کانگریس کے پاس ہے۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور یورپ میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کافی غیر مقبول ہیں لیکن زیادہ تر مغربی حکومتیں ان کے ساتھ کھڑی ہیں۔ اسرائیلی جارحیت کے بعد اقوام متحدہ اور تمام عالمی قوانین ایک مذاق بن چکے ہیں۔ غزہ میں 55ہزار فلسطینیوں کو قتل کرنے والا نیتن یاہو اقوام متحدہ کی طرف سے سیز فائر کی قراردادوں کو بڑے متکبرانہ انداز میں مسترد کر چکا ہے۔ فی الوقت اسرائیل صرف ایران پر نہیں بلکہ اقوام متحدہ پر بھی حملہ آور ہے۔
یہ وہی اقوام متحدہ ہے جس کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 181کے ذریعے اسرائیل وجود میں آیا تھا۔ آج وہی اسرائیل اقوام متحدہ کیلئے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے ذرا سوچیے! اگر اقوام متحدہ مکمل طور پر غیر موثر ہو گئی تو پھر یہ دنیا کیسے چلے گی؟ عملی طور پر آج کی دنیا میں جنگل کا قانون چل رہا ہے جس کے پاس طاقت ہے صرف اسی کی مانی جاتی ہے۔ دنیا بھر کے کمزور ممالک کو کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے اسرائیل جس راستے پر چل رہا ہے یہ دنیا میں ’’جس کی لاٹھی اسکی بھینس‘‘ کے قانون کی سربلندی کا راستہ ہے۔ یہ قانون اقوام متحدہ کے چارٹر کی نفی ہے لہٰذا دنیا کو اُٹھنا ہو گا اقوام متحدہ کو بچانا ہو گا ورنہ دنیا کے ہر خطے میں کوئی نہ کوئی اسرائیل کی طرح اپنی ہوسِ ملک گیری کو قانون بنا کر نافذ کر دیگا۔ اقوام متحدہ کو بچانے کا ایک ہی راستہ ہے ایران کیخلاف اسرائیلی جارحیت کے مخالف ممالک مشترکہ طور پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یہ قرارداد لائیں کہ اسرائیل اسی جنرل اسمبلی کی قرار داد 181کے تحت قائم ہوا لیکن اسرائیل اس قرارداد پر عملدرآمد نہیں کر رہا لہٰذا یہ قرارداد واپس لی جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اقوام متحدہ اپنی قرارداد واپس لے سکتی ہے؟
جی ہاں! ایسی مثالیں موجود ہیں 10نومبر 1975ء کو جنرل اسمبلی نے قرارداد 3379کے ذریعے صیہونیت کو نسل پرستی کی ایک شکل قرار دیا۔ اس قرارداد کے حق میں 72ووٹ تھے اور مخالفت میں 35ووٹ آئے جبکہ 32ممالک نے ووٹ نہیں دیا تھا قبل ازیں 1973ء میں جنرل اسمبلی قرارداد 3151کےتحت نسل پرستی کی مذمت کر چکی تھی۔ 1991ء میں میڈرڈ میں اسرائیل اور فلسطینی قیادت میں مذاکرات کی کوشش شروع ہوئی تو اسرائیل نے شرط رکھی کہ قرارداد 3379کو واپس لیا جائے۔
جنرل اسمبلی نے یہ قرارداد واپس لے لی اور میڈرڈ میں فلسطینی وفد کی اسرائیل سے ملاقات ہوئی جس میں اردن، لبنان اور شام کے نمائندے بھی شامل ہوئے۔ میڈرڈ کانفرنس کے بعد اوسلو مذاکرات شروع ہوئے اور ایک کمزور سی فلسطینی ریاست کے قیام کا راستہ نکلا لیکن قرارداد 181پر عملدرآمد نہ ہوا کیونکہ اس قرارداد میں جو علاقے فلسطینی ریاست میں شامل کئے گئے ان میں سے کئی علاقوں پر بدستور اسرائیل کا قبضہ ہے۔ 181کے تحت مسجد اقصیٰ اقوام متحدہ کے کنٹرول میں ہونی چاہئے لیکن مسجد اقصیٰ پر بھی اسرائیل کا قبضہ ہے اگر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی منظور کردہ قرارداد 3379واپس ہو سکتی ہے تو 181بھی واپس ہو سکتی ہے۔
3379کو 72ممالک نے ووٹ دیا تھا۔ 181کو صرف 33ممالک نے ووٹ دیا تھا جس میں ایک بھی عرب اور مسلم ملک شامل نہ تھا۔ 24اکتوبر 1947ء کو قرارداد 181منظور ہوئی تو اس کا مقصد دو ریاستوں کا قیام تھا۔ اس وقت اقوام متحدہ کے ارکان کی تعداد صرف 56تھی جس میں سے 33نے حمایت اور 13نے مخالفت کی تھی جبکہ 10ممالک نے ووٹ نہیں دیا تھا۔ آج اقوام متحدہ کے ارکان کی تعداد 193ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے ماہرین کی ایک بڑی تعداد اس رائے سے اتفاق کرتی ہے کہ قرارداد 181دراصل اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے لہٰذا اس قرارداد کو واپس لیکر مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے اقوام متحدہ میں دوبارہ بحث کی جائے اور مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے کوئی نئی قرارداد لائی جائے۔ یاد رکھئے کہ 181کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی مسترد کر دیا تھا اور 8دسمبر 1947ء کو امریکی صدر ٹرومین کے نام لکھے گئے ایک خط میں اس قرارداد کو یو این چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ قرارداد 181میں واضح طور پر کہا گیا کہ یروشلم شہر نہ اسرائیل کا حصہ ہو گا نہ فلسطین کا حصہ ہو گا اس شہر کا انتظام اقوام متحدہ چلائے گی لیکن 1967ء سے اسرائیل نے یروشلم اور مسجد اقصیٰ پر قبضہ کر رکھا ہے۔
اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے 22نومبر 1967ء کو قرارداد 242کے تحت اسرائیل کو یروشلم سمیت تمام مقبوضہ عرب علاقے خالی کرنے کیلئے کہا لیکن اسرائیل نے اس قرارداد پر بھی عمل نہیں کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پچھلے دور صدارت میں 14مئی 2018ء کو یروشلم میں امریکی سفارتخانہ منتقل کر کے قرارداد 181کی رہی سہی دھجیاں بھی اڑا دیں۔ ہمیں ٹرمپ کی شخصیت اور کردار کو صرف پاک بھارت تنازعے کی روشنی میں نہیں بلکہ وسیع تر تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ ایک موثر اقوام متحدہ کے بغیر مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو سکتا۔ اقوام متحدہ کو موثر بنانے کیلئے 181کو واپس لینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اگر اوآئی سی یہ کام شروع کرے تو صرف افریقہ اور مشرق وسطیٰ نہیں بلکہ لاطینی امریکہ کے کئی ممالک بھی او آئی سی کی حمایت کر سکتے ہیں اور دنیا سے جنگل کا قانون ختم کیا جا سکتا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔