Time 23 جون ، 2025
بلاگ

گڈ بائی ٹرمپ

یہ لاقانونیت نہیں تو کیا ہے؟ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایران پر حملے کا فخریہ اعلان دراصل بین الاقوامی لاقانونیت کی ایک چیختی اور چنگھاڑتی ہوئی مثال ہے، دنیا پر جنگل کا قانون نافذ کرنے کی کوشش فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے،  21جون کو حکومتِ پاکستان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کے نوبل انعام کیلئے نامزد کیا اور 22جون کو ٹرمپ اسرائیل اور ایران کی جنگ میں کود گئے ۔

 اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے امریکا کی طرف سے ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کو عالمی امن کیلئے ایک براہ راست خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یو این چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی پابندی کی جائے،  دوسری طرف اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایران پر حملے کے بعد ٹرمپ کو مبارکباد دی اور اسرائیل و امریکا کے انتہائی پائیدار اتحاد پر فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ اطمینان کا اظہار کیا،  یہ نیتن یاہو کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ وہ امریکا کو اس جنگ میں گھسیٹ لایا ہے ۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے 19 جون کو وائٹ ہاؤس میں پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ساتھ ملاقات کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ وہ ایران و اسرائیل میں سیز فائر کیلئے دو ہفتے تک انتظار کریں گے اسکے بعد استنبول میں اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا جس میں سفارت کاری کے ذریعہ مسئلے کا حل نکالنے پر غور و فکر ہوا لیکن اس اجلاس کے چند گھنٹے بعد امریکہ نے ایران کی تین ایٹمی تنصیبات پر حملہ کر دیا۔

 اگر ڈونلڈ ٹرمپ کچھ دن انتظار کر لیتے اور دو ہفتے کے بعد ایران پر حملہ کرتے تو شاید اتنا ردعمل نہ ہوتا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے تو دو دن بھی انتظار نہ کیا،  اب اسرائیل اور ایران کی لڑائی امریکا اور ایران کی لڑائی میں بدل چکی ہے، ایران نے امریکی حملوں کے کچھ ہی دیر بعد اسرائیل پر نئے میزائل حملے کر دیئے یواین چارٹر کے تحت ایران کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔

خدشہ ہے کہ ایران کی طرف سے مشرق وسطیٰ میں امریکا کے فوجی اڈوں پر بھی حملے کئے جا سکتے ہیں لیکن اس حقیقت میں کسی کو شک نہیں رہنا چاہئے کہ اسرائیل کی فوجی طاقت کا بھرم ٹوٹ گیا ہے،  اسرائیل تن تنہا ایران کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہا اور اسی ناکامی پر پردہ ڈالنے کیلئے امریکہ کو جنگ میں گھسیٹا گیا ہے،  1967ء کی عرب اسرائیل جنگ صرف چھ دن جاری رہی تھی، اس جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم، غزہ اور گولان کی پہاڑیوں سمیت مصر کے اہم علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا، 1973ء کے ماہِ رمضان میں شروع ہونے والی عرب اسرائیل جنگ 19 دن جاری رہی جس میں مصر نے نہ صرف اپنے کئی علاقے واپس لے لئے بلکہ اس جنگ میں اسرائیل کا بہت نقصان بھی ہوا، 1982ء میں اسرائیل نے لبنان پر قبضہ کر لیا،  اس جنگ میں بھی اسرائیل کو امریکا کی مدد حاصل تھی لیکن آخر کار اسرائیل کو لبنان سے واپس جانا پڑا،  لبنان سے اسرائیل کی پسپائی میں حزب اللہ کا کردار بہت اہم تھا ، حزب اللہ کو ایران کی حمایت حاصل تھی، جو لوگ حزب اللہ کو ایران کی پراکسی قرار دیتے ہیں وہ اسرائیل کو امریکا کی پراکسی قرار دینے میں بہت ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں ۔

13 جون 2025 ء کو اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو پہلے مرحلے میں یقیناً اسرائیل کو برتری حاصل تھی کیونکہ اسرائیل نے ایران کی فوجی قیادت اور اہم سائنسدانوں کو اُن کے گھروں میں نشانہ بنا لیا،  یہ سب شہداء اپنے گھروں میں آرام سے سوئے ہوئے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ 15 جون کو مسقط میں ایران اور امریکا کے مذاکرات ہونے ہیں اس لئے 15 جون سے قبل اسرائیل کوئی حملہ نہیں کرے گا۔ 

اسرائیل نے 15 جون کے مذاکرات کی آڑ میں ایرانی قیادت کو نشانہ بنا کر یہ سمجھا کہ ایران میں بغاوت ہو جائے گی اور چند دنوں میں حکومت بدل جائے گی،  جب ایران نے اسرائیل پر جوابی حملے شروع کئے تو اسرائیل کی برتری بہت تیزی سے ہزیمت میں بدل گئی، ایرانی میزائلوں نے تل ابیب اور حیفہ سمیت اسرائیل کے اہم شہروں پر کامیاب حملے کر کے دنیا کو حیران کر دیا،  ہزاروں اسرائیلی شہری قبرص کے راستے سے ملک چھوڑ کر بھاگ گئے تو نیتن یاہو نے ٹرمپ کو مدد کیلئے پکارا۔

ٹرمپ کی اس جنگ میں شمولیت دراصل اسرائیل کی شکست کا اعلان ہے،  ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے ایران کی ایٹمی صلاحیت ختم کر دی ہے ،  اگر یہ واقعی سچ ہے تو پھر اسرائیل کو سیز فائر کا اعلان کر دینا چاہئے کیونکہ اسرائیل نے یہ جنگ ایران کی ایٹمی صلاحیت ختم کرنے کیلئےہی تو شروع کی تھی، اگر اسرائیل سیز فائر نہیں کرتا اور جنگ جاری رہتی ہے تو یہ جنگ پورے خطّے میں پھیلے گی ۔ 

اس جنگ کا سب سے زیادہ نقصان امریکا کو ہو گا، امریکا کی فوجی طاقت سے کسی کو انکار نہیں لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ اپنی تمام تر فوجی طاقت کے باوجود امریکا کو بہت سی اہم جنگوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، کہاں سے شروع کروں اور کہاں تک سناؤں،  1955 ء میں امریکا نے ویت نام میں ایک جنگ شروع کی، 20 سال تک یہ جنگ جاری رہی، آخر کار امریکا شکست سے دوچار ہوا ۔

2001 ء میں امریکا نے افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف جنگ شروع کی ، 20 سال کے بعدامریکا نے طالبان کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کئے اور رسوا ہو کر افغانستان سے بھاگ نکلا۔ مجھے یاد ہے کہ جب امریکا نے اکتوبر 2001 ء میں افغانستان پر حملے کئے تو پاکستان نے امریکی فوج کو اڈے دیے لیکن تمام تر ائیر پاور کے باوجود امریکا طالبان کو ختم نہ کر سکا۔ 

طالبان نے اس جنگ کو لمبا کر کے بازی پلٹ دی، طالبان کے پاس میزائل نہیں تھے،  ایران کے پاس میزائل بھی ہیں اور ایک طاقتور نیوی بھی ہے جو آبنائے ہرمز کو بند کرکے عالمی معیشت کیلئے بحران پیدا کرسکتی ہے،ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں پاکستان نے امریکا کو ایران کے خلاف جنگ کا حصّے بننے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ٹرمپ نہیں مانے۔

 میں نے پہلے بھی گزارش کی تھی کہ ٹرمپ کی شخصیت اور کردار کو صرف پاک بھارت جنگ رکوانے کے تناظر میں نہ دیکھا جائے،  انہوں نے غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام پر صرف آنکھیں بند نہیں کیں بلکہ فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کی تجویز بھی پیش کر دی،  اب انہوں نے ایران پر حملہ کر دیا ہے اور عالمی امن کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے، وہ امن کے نہیں جنگ کے پیامبر بن چکے ہیں۔

 اُنکی سیاسی و اخلاقی ساکھ بُری طرح مجروح ہو چکی ہے اور اب وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ثالث کا کردار ادا کرنے کے بھی قابل نظر نہیں آتے،  پاکستان کو ٹرمپ سے کوئی اچھی توقع نہیں رکھنی چاہئے اور اپنے گھر کے معاملات کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے،  ٹرمپ نے جس بین الاقوامی لاقانونیت کو فروغ دیا ہے وہ بھارت کی حوصلہ افزائی کا باعث بنے گی،  پاکستان نے اس خطے کو ایک نئی جنگ سے بھی بچانا ہے اور بھارتی سازشوں کا مقابلہ بھی کرنا ہے ۔ سادہ سی بات ہے کہ نیتن یاہو کا دوست اور اتحادی پاکستان کا دوست نہیں ہو سکتا، ٹرمپ سے کسی اچھےکی اُمید نہ رکھیں اپنی ایٹمی صلاحیت بچائیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔