فیکٹ چیک: پینٹاگون کے نقشے بھارت اور پاکستان کی فضائی حدود کے استعمال کا دعویٰ مسترد کرتے ہیں

تاحال دستیاب معلومات کے مطابق، پاکستانی یا بھارتی فضائی حدود کے استعمال کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

22 جون کو امریکا کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر بمباری کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر یہ دعوے گردش کرنے لگے کہ امریکی طیاروں نے حملے کے لیے پاکستانی یا بھارتی فضائی حدود استعمال کیں۔

دونوں دعوے بے بنیاد ہیں۔

دعویٰ

22 جون کو ایک صارف نےX(سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا: ”امریکا نے ایرانی جوہری تنصیبات پر بمباری کے لیے پاکستانی فضائی حدود استعمال کیں، افغان انٹیلی جنس نے اس کی تصدیق کی ہے۔“

اس پوسٹ کے جواب میں، پاکستانی سینیٹر شیری رحمٰن سمیت متعدد پاکستانی صارفین نے پاکستان پر لگائے گئے الزام کو مسترد کیا، لیکن اس کے بجائے دعویٰ کیا: ”ایران پر بمباری کے لیے بھارتی فضائی حدود استعمال کی گئی، جس کی اب امریکی سرکاری ذرائع سے تصدیق ہو چکی ہے۔“

پاکستان کے وزیرِ دفاع نے بھی اسی طرح کا دعویٰ X (سابقہ ٹوئٹر) پر شیئر کیا۔

صورتحال کو مزید الجھاتے ہوئےایک مقامی پاکستانی میڈیا ادارے نے”دفاعی ذرائع” کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ امریکی B-2 اسپرٹ اسٹیلتھ (US B-2 Spirit stealth) بمبار طیارے، جو گوام (Guam) سے اُڑے، بھارت کے ذریعے ایرانی فضائی حدود میں داخل ہوئے۔

حقیقت

امریکا کی جانب سے جاری کردہ سرکاری نقشے اور پروازوں کے راستے اس آپریشن میں پاکستانی یا بھارتی فضائی حدود کے استعمال کے دعوؤں کو غلط ثابت کرتے ہیں۔

22 جون کو حملوں کے بعد امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل ڈین کین (General Dan Caine) اور امریکی سیکرٹری دفاع پیٹر ہیگ سیٹھ (Peter Hegseth) نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی، جس میں B-2 بمبار طیاروں کے پرواز کے راستے کی تفصیلات فراہم کی گئیں۔

جنرل ڈین کین نے وضاحت کی کہ B-2 بمبار طیاروں کے دو دستے تعینات کیے گئے تھے۔ ایک گروپ نے بحرالکاہل کے اوپر پرواز کی تاکہ دشمن کو دھوکہ دیا جا سکے، جبکہ اصل حملہ آور طیارے بحرِ اوقیانوس کے راستے روانہ ہوئے اور مشرقی بحیرہ روم کے ذریعے ایرانی فضائی حدود میں بغیر کسی رکاوٹ کے داخل ہوئے۔

پریس کانفرنس کے دوران پینٹاگون کی جانب سے جاری کردہ نقشے میں واضح طور پر دکھایا گیا کہ طیارے ایران میں مغرب کی سمت سے داخل ہوئے، نہ کہ مشرق سے، جہاں پاکستان اور بھارت واقع ہیں۔

ان پروازوں کے نقشے متعدد میڈیا اداروں، بشمول پی بی ایس (PBS) نیوز اور بی بی سی (BBC)،  رائٹرز کی رپورٹس میں شائع کیے جا چکے ہیں۔

فیکٹ چیک: پینٹاگون کے نقشے بھارت اور پاکستان کی فضائی حدود کے استعمال کا دعویٰ مسترد کرتے ہیں
پینٹاگون کی جانب سے جاری کردہ ایک نقشہ، جو آپریشن مڈنائٹ ہیمر (midnight hammer) کے پرواز کے راستے اور وقت کی تفصیلات ظاہر کرتا ہے

جنرل کین کی مکمل پریس کانفرنس یہاں بھی دیکھی جا سکتی ہے:

پینٹاگون کے جاری کردہ نقشے میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ جس پرواز کے راستے کا حوالہ مقامی ٹی وی نے دیا، وہ دراصل دشمن کو دھوکہ دینے کے لیے اختیار کیا گیا تھا اور یہ مغرب کی جانب گوام میں واقع امریکی اڈے کی طرف گیا۔ جبکہ اصل B-2 بمبار طیارے، جنہوں نے حملہ کیا، مغربی سمت سے ایران میں داخل ہوئے، جو بحیرہ عرب سے کوسوں دور ہے۔

فیکٹ چیک: پینٹاگون کے نقشے بھارت اور پاکستان کی فضائی حدود کے استعمال کا دعویٰ مسترد کرتے ہیں
پینٹاگون کی جانب سے جاری کردہ نقشہ ،جو اصل اور دھوکہ دہی کیلئے بھیجے گئے B-2بمبار طیاروں کے راستے کو ظاہر کرتا ہے۔

اس کی مزید تصدیق صحافی طاہر عمران میاں نے بھی کی، جنہوں نے جیو فیکٹ چیک کو بتایا:”ان نقشوں اور دیگر دستیاب معلومات کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ ایران پر براہِ راست حملے میں شامل طیاروں نے نہ پاکستانی اور نہ ہی بھارتی فضائی حدود استعمال کیں۔“

اب تک کسی امریکی عہدیدار کی جانب سے بھارتی فضائی حدود کے استعمال کا کوئی عوامی اعتراف سامنے نہیں آیا، جیسا کہ پاکستانی سینیٹر نے دعویٰ کیا تھا۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں نے سرکاری طور پر اس آپریشن میں اپنی فضائی حدود کے استعمال کی تردید کی ہے،  بھارتی حکومت کے فیکٹ چیکنگ ادارے PIB Fact Check نے اپنے سرکاریX ہینڈل پر واضح کیا کہ آپریشن مڈنائٹ ہیمر کے دوران امریکہ نے بھارتی فضائی حدود استعمال نہیں کی۔

اسی طرح، پاکستان کی وزارتِ اطلاعات کے فیکٹ چیکنگ ہینڈل نے بھی پاکستانی فضائی حدود کے استعمال کے دعوے کو ”جھوٹی خبر“ قرار دے کر مسترد کر دیا۔

فیصلہ: تاحال دستیاب معلومات اور امریکا کی جانب سے فراہم کردہ نقشوں اور پروازوں کے راستوں کے مطابق، اس بات کا کوئی ثبوت یا اشارہ نہیں کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے میں پاکستانی یا بھارتی فضائی حدود استعمال کی گئی ہو۔

ہمیں X (ٹوئٹر) GeoFactCheck@ اور انسٹا گرام geo_factcheck@ پر فالو کریں۔

 اگر آپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔