24 جون ، 2025
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آج سوشل میڈیا پر یہ اعلان کرکے سب کو حیران کردیا کہ ایران اور اسرائیل نے جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے۔
ٹرمپ نے اس جنگ کو ’12 روزہ جنگ‘ کا نام دیا اور کہا کہ فریقین ایک دوسرے پر حملے بند کر دیں گے۔
تاہم خود اسرائیلی میڈیا نے ٹرمپ کے اس اچانک اعلان کے بعد اپنی حکومت کے سامنے کچھ سخت سوالات رکھے ہیں جن کے جوابات نہ صرف اس جنگ بندی کی نوعیت بلکہ مستقبل میں خطے کی صورت حال پر بھی اثر انداز ہوں گے۔
اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے مطابق جنگ بندی کا مطلب ہے کہ دونوں جانب سے فائرنگ بند اور جنگ ختم، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس اعلان سے قبل امریکا اور اسرائیل کے درمیان اعلیٰ سطح کی خفیہ بات چیت ہوئی اور ایران و قطری حکومت کے درمیان بھی رابطے جاری تھے۔
اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے قائم رہنے یا نہ رہنے کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ یہ جنگ بندی کن شرائط پر ہوئی ہے اور یہ کہ امریکا نے اسرائیل سے اور قطر نے ایران سے کیا وعدے کیے۔
اسرائیلی میڈیا نے سوالات اٹھائے ہیں کہ کیا اسرائیل کو ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے کوئی امریکی ضمانت دی گئی ہے؟ کیا ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے کوئی رعایتیں دی ہیں؟ اور کیا اس حوالے سے کوئی واضح طریقہ کار وضع کیا گیا ہے کہ اگر جنگ بندی کی خلاف ورزی ہو تو اس کا ردعمل کیسے دیا جائے گا؟
اسرائیل نے 13 روز قبل یہ جنگ ایک بنیادی مقصد کے تحت شروع کی تھی اور وہ تھا ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنا۔
تاہم اسرائیلی حملے اور بعد ازاں جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کے بعد تاحال یہ بات واضح نہیں ہے کہ ایرانی جوہری تنصیبات کو کتنا نقصان پہنچا اور ایران انہیں کتنے عرصے میں دوبارہ قابل استعمال بناسکتا ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق یہی وہ بنیادی سوال ہے جس کا جواب جنگ بندی کے مستقبل اور جنگ میں اسرائیل کی کامیابی کا تعین کرنے کے لیے بہت ضروری ہے لیکن اس بارے میں خود اسرائیلی حکومت کے پاس بھی کوئی وضاحت نہیں۔
امریکا، اسرائیل اور ایران تینوں یہ کہہ چکے ہیں امریکی حملے سے قبل ایران نے افزودہ یورینم کا ذخیرہ جوہری تنصیبات سے ہٹا دیا تھا لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ ایران کتنا یورینیم بچانے میں کامیاب رہا۔
اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ ایران اس افزودہ یورینیم کو جنگ میں اپنی کامیابی اور اسرائیل کی ناکامی کے طور پر پیش کرے گا جو کہ اسرائیل کے لیے ہزیمت کا باعث بن سکتاہے۔
اسرائیلی میڈیا نے اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ اسرائیل اپنے انٹیلیجنس وسائل کا استعمال کرتے ہوئے اس یورینیم کا پتا لگانے اور اس پر قبضہ کرنے یا اسے تباہ کرنے کی کوشش کرسکتا ہے جس سے ایک بار پھر جنگ کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔
اسرائیلی میڈیا نے تشویش ظاہر کی ہے کہ اگرچہ یمن کے حوثیوں نے اسرائیل ایران جنگ کے دوران اسرائیل پر حملے نہیں کیے لیکن ان کے بیلسٹک میزائل اسرائیل کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ جنگ بندی کے بعد یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ حوثی دوبارہ اسرائیل پر اپنے حملے شروع کرسکتے ہیں، اس وجہ سے یہ سوال اسرائیلی شہریوں کے لیے بہت اہم ہے کہ آیا اس جنگ بندی میں حوثی بھی شامل ہیں یا نہیں؟
اس جنگ بندی کے بعد سب کی نظریں غزہ پر ہیں جہاں 627 دن سے بد ترین اسرائیلی جارحیت جاری ہے۔
اسرائیلی میڈیا نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا ٹرمپ نے ایران پر حملے کے بدلے نیتن یاہو سے غزہ میں جنگ ختم کرنے کا وعدہ لیا ہے؟ کیا اسرائیل اس طویل ترین جنگ کو ختم کرے گا اور مغویوں کو رہائی کا معاہدہ کرے گا یا کیا ڈونلڈ ٹرمپ جنگ بندی کا اعلان کرنے کے بعد مشرق وسطیٰ سے توجہ ہٹا لیں گے؟