26 جون ، 2025
اسرائیل کے بے قابو ہوتے رویے پر خلیجی اتحادیوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
خلیجی عرب ممالک کے اعلیٰ حکام نے خبردار کیا ہے کہ ایران پر اسرائیل کے حالیہ حملے نے مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کو بڑھا دیا ہے اور اسرائیل اب خود ایک "غیر ذمہ دار قوت" کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو کسی بھی لمحے علاقائی امن کو تہہ و بالا کر سکتا ہے۔
ایک اعلیٰ عرب سفارتکار نے اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کو "ناقابل معافی اور لاپرواہی پر مبنی" قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "اسرائیل، جو کبھی ایرانی ایٹمی خطرے کے خلاف محافظ سمجھا جاتا تھا، اب خود سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔"
برطانوی جریدے دی ٹیلی گراف میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق خلیجی ممالک کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کی اسرائیلی کوشش بعض حلقوں میں قابلِ ستائش سمجھی گئی لیکن اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی "بے لگام" عسکری حکمت عملی خطے کے لیے باعثِ تشویش ہے۔
ایک خلیجی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی ٹیلی گراف کو بتا یا کہ "نیتن یاہو کو اب کوئی روکنے والا نہیں رہا۔ وہ غزہ، لبنان، شام اور اب ایران میں طاقت کا اندھا استعمال کر رہا ہے۔"
ابراہم معاہدوں کا مستقبل غیر یقینی
اسرائیل کے بڑھتے ہوئے عسکری عزائم نے ابراہم معاہدوں کی کامیابی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ان معاہدوں کے تحت متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان اسرائیل سے تعلقات معمول پر لائے تھے لیکن اب خطے میں اسرائیل کا رویہ ان ہی ممالک میں بے چینی کا سبب بن رہا ہے۔
سعودی عرب جو کبھی اس اتحاد کا ممکنہ رکن سمجھا جاتا تھا اب واضح طور پر اسرائیلی کارروائیوں کی مذمت کر رہا ہے۔ ایرانی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے کے بعد سعودی وزارتِ خارجہ نے اسے "برادرانہ اسلامی جمہوریہ ایران پر کھلی جارحیت" قرار دیا۔
عمانی وزیر خارجہ بدر البوسیدی نے بھی اس حملے کو "غیر قانونی اور ناقابلِ جواز" قرار دیا۔
اسرائیل کی عسکری بالا دستی خطرہ
دبئی میں قائم تحقیقی ادارے B’huth کے سربراہ محمد بہارون کے مطابق "اسرائیل اب کسی بھی ملک پر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ طاقت اگر بے قابو ہو جائے تو خطے اور عالمی نظام دونوں کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے۔"
انہوں نے قطر کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ وہاں حماس کا سیاسی دفتر موجود ہے، اس لیے اسرائیل اسے بھی نشانہ بنا سکتا ہے اور یہاں تک کہ ایران کے ساتھ قطر کے مشترکہ گیس فیلڈز کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
سعودی عرب کی نئی ترجیحات
تجزیہ کار یاسمین فاروق کے مطابق سعودی عرب اب فوجی محاذ آرائی سے گریز کر رہا ہے، کیونکہ ولی عہد محمد بن سلمان کی "ویژن 2030" پالیسی کے تحت تمام توجہ اقتصادی ترقی پر مرکوز ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب سعودی عرب نہ تو ایران پر فوجی حملے کے حق میں ہے، نہ ہی کسی نظام کی تبدیلی کی حمایت کرتا ہے۔
واضح رہے کہ چین کی ثالثی سے 2023 میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی بھی اسی پالیسی کا حصہ تھی۔
خلیج میں اضطراب، اسرائیل پر عدم اعتماد
رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ اسرائیل کی کارروائیوں کے بعد خلیجی ریاستوں میں اضطراب بڑھ رہا ہے ایک طرف ایران کی حوثی باغی اور عراقی ملیشیاؤں کی کمزور ہوتی قوت، دوسری طرف اسرائیل کی بے روک طاقت، خلیجی ممالک کو ایک مشکل صورتحال میں ڈال رہی ہے۔
واشنگٹن میں مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ماہر ڈینیئل بینائیم کے مطابق مشرق وسطیٰ کا نیا 'اسپارٹا' اب اسرائیل ہے جسے امریکا کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔
مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ واشنگٹن سے وابستہ اور سابق امریکی محکمہ خارجہ میں خلیجی امور کے ماہر ڈینیئل بینائیم کہتے ہیں کہ وہ ممالک جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے، شاید اس بات سے کچھ حد تک اطمینان محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ ایک طاقتور اتحادی موجود ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ "میرا خیال ہے کہ عمان اور کویت جیسے ممالک جنہوں نے کشیدگی میں کمی اور سفارت کاری پر زیادہ انحصار کیا ہے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کم رکھے ہیں، وہ ایک ایسے خطے سے زیادہ خوفزدہ ہیں جہاں اسرائیل زیادہ اسٹریٹجک کنٹرول حاصل کر رہا ہے اور فیصلے خود کر رہا ہے۔"