پاکستان
13 ستمبر ، 2013

شاہ زیب قتل کیس کے مختلف مرحلے

شاہ زیب قتل کیس کے مختلف مرحلے

کراچی: شاہ زیب قتل کیس میں مقتول کے ورثا نے چاروں ملزمان کو معاف کرنے سے متعلق حلف نامے سندھ ہائیکورٹ میں جمع کرادیئے۔

مقدمہ کن کن مراحل سے گزرتے ہوئے فیصلے تک پہنچا اور مقتول کے اہل خانہ کے کیا کیا مطالبات رہے ، درخشاں تھانے کی حدود میں 20 سالہ نوجوان شاہ زیب بہن کی شادی سے گھر واپسی پر ڈیفنس کے علاقے میں قتل کیاگیا۔

قتل کے الزام میں ملزمان سراج تالپور،غلام مرتضیٰ لاشاری اورسجاد تالپور کو گرفتار ہوئے۔لیکن مقتول شاہ زیب کے والدین انصاف کی امید لئے میڈیا کے سامنے آگئے اور مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کی گرفتاری کا مطالبہ کرڈالا۔ 

ان کا کہنا تھا کہ مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کو بااثرافراد کی سرپرستی میں دبئی فرارکرادیا گیاہے۔

مقتول کے والدین کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے پر کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ بااثر قاتل گرفتار نہ ہوا تو چیف جسٹس سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لے لیا۔

سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس حرکت میں آئی اورملزم شاہ رخ جتوئی نے خود کو دبئی میں پولیس کے حوالے کردیا۔

ملزمان کے خلاف7 مارچ 2013 کو فرد جرم عائد کی گئی۔

ملزم شاہ رخ جتوئی کو نابالغ قرار دیکر سزائے موت سے بچانے کی کوشش کی گئی لیکن میڈیکل بورڈ نے شاہ رخ جتوئی کو بالغ قرار دے دیا۔

مقتول کے والد نے کیس کو خراب کرنے کا الزام لگایا اور ایک بار پھر کہاکہ وہ کسی دباوٴ میں نہیں آنے والے۔7جون 2013کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج غلام مصطفیٰ میمن نے3 ماہ تک سماعت کے بعد فیصلہ سنادیا۔

 عدالت نے قتل کا جرم ثابت ہونے پر دو مرکزی ملزمان شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپورکو سزائے موت اور پانچ، پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزاسنائی گئی۔جب کہ شریک ملزمان سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو بھی مجرم قرار دیتے ہوئے عمرقید اور پانچ، پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا ملی۔

اس سزا کے بعد مقتول شاہ زیب کی والدہ نے عدلیہ اور میڈیا کا شکریہ دا کیا اور کہاکہ ملزمان کی سزاوٴں پر اطمینان ہے مجرموں سے ڈیل نہیں ہوگی لیکن ملزمان کواللہ کے نام پر معاف کیاجاسکتاہے۔

سزا کے خلاف ملزمان نے سندھ ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی لیکن بالاخر مقتول کے اہل خانہ نے ملزمان کواللہ کے نام پر معاف کرنے سے متعلق حلف نامے سندھ ہائیکورٹ میں داخل کردیئے۔

ماہرین قانون کے مطابق مقتول کے اہل خانے دفعہ 302 کے تحت مجرموں کو معاف کرسکتے ہیں لیکن انسداد دہشت گردی کی دفعہ کے اطلاق کے باعث ملزمان کی اپیل پر بریت یا سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ سندھ ہائیکورٹ کرے گی۔

مزید خبریں :