13 جنوری ، 2015
کراچی.....افضل ندیم ڈوگر..... جیو نیوز کے رپورٹر ولی خان بابر کی شہادت کو چار سال گذر گئے۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت سے سزائیں پانے والے ملزمان نے اعلیٰ عدالت میں اپیلیں کر رکھی ہیں۔ انصاف کے حصول کی کوشش میں دہشت گردوں نے کیس کے 9 اہم کرداروں کو قتل کردیا، مقدمے کی پیروی کرنے پر ولی خان بابر کا خاندان انتہائی مشکلات کا شکار ہے جبکہ کیس کے کئی اور اہم کردار دربدر ہوچکے ہیں۔ جیو نیوز کے رپورٹر ولی خان بابر کو 13 جنوری 2011 کی رات دفتر سے گھر جاتے ہوئے کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں فائرنگ کرکے شہید کیا گیا تاق۔ واردات کی منصوبہ بندی اس قدر خفیہ کی گئی تھی کہ قاتلوں کا سراغ شاید کبھی بھی نہیں مل پاتا، لیکن ملزمان کی گاڑی کے نمبر نے پورا منصوبہ فاش کردیا۔ یہی وجہ تھی کہ کیس کے شروع میں ہی قاتلوں کی گاڑی کی نشاندہی اور اسے برآمد کرنے والے دو پولیس اہلکاروں سمیت تین اہم کرداروں کو چن چن کر قتل کردیا گیا۔ اس سلسلے میں پولیس کی مدد کرنے والے ایک شہری رجب بنگالی کو ولی بابر کے قتل کے دو ہفتے بعد ہی اغواء کرکے مار دیا گیا۔ رجب علی کی بوری میں بند لاش 29 جنوری کو گلشن اقبال سے ملی۔ واردات میں استعمال کی گئی گاڑی کا نمبر نوٹ کرنے والے ایک پولیس اہلکار آصف رفیق کو واردات کے اٹھارہ دن بعد 31 جنوری کو لیاقت آباد میں گھر سے باہر بلوا کر فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔ رجب بنگالی کی لاش کے ساتھ ملنے والی پرچی پر کار برآمد کرنے والے پولیس اہلکارارشد کنڈی کے لئے ایسے ہی انجام کی دھمکی دی گئی تھی۔ ارشد کنڈی کو بھی 20 مارچ کو گلزار ہجری پولیس لائن کے باہر فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ولی بابر کے قتل کے 85 دن بعد واردات میں ملوث 5 ملزمان کو گرفتار کیا گیا تو گرفتاریاں کرنے والی پولیس پارٹی کے انچارج ایس ایچ او شفیق تنولی کے بھائی نوید تنولی کو اسی روز یعنی 7 اپریل کو گلشن اقبال میں قتل کردیا گیا۔ ولی بابر کے قتل کا مرکزی اشتہاری ملزم لیاقت علی 26 مئی 2012 کو کلفٹن میں ایس ایچ او شفیق تنولی کی پولیس پارٹی سے مقابلے میں ہلاک ہوگیا ،جس کے بعد شفیق تنولی کے ایک ساتھی پولیس اہلکار کو گلستان جوہر میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔