پاکستان
24 جنوری ، 2017

مبینہ کرپشن کو فیصلہ نہیں کہہ سکتے، جسٹس عظمت

مبینہ کرپشن کو فیصلہ نہیں کہہ سکتے، جسٹس عظمت

سپریم کورٹ میں پانامالیکس سے متعلق آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف کی جانب سے سید ظفر علی شاہ کیس کا غلط حوالہ دیے جانے پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے برہمی کا اظہار کیا ہے اور ریمارکس دیے کہ آپ نے فائل دیکھی نہ فیصلہ پڑھا ،وکیل صاحب آپ نے بے بس کر دیا۔

سپریم کورٹ میںپانامالیکس سے متعلق آئینی درخواستوں کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربینچ سماعت کررہاہے ۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے میں لندن فلیٹس کے بارے میں کوئی بات نہیں تھی،عدالت نے فیصلہ میں مبینہ کرپشن کا ذکر کیا، مبینہ کرپشن کو فیصلہ نہیں کہہ سکتے۔

جسٹس عظمت سعید نےتوفیق آصف سے استفسار کیا کہ خالد انور کس کی جانب سے پیش ہو رہے تھے؟

وکیل جماعت اسلامی نے کہا کہ مجھے پیراگراف 127پڑھنے کی اجازت دیں، جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نےاظہار برہمی کیا اور کہا جو دل کرتا ہے وہ پڑھتے رہیں، فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ایک آدمی کی حکومت تھی اور پھر مشرف کی جمہوریت آگئی تھی۔

توفیق آصف نے کہا کہ یہ تو اس عدالت نے قوم پر بڑا احسان کیا ہے ۔

جسٹس عظمت نے طنزیہ جملہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ جی ہاں ایسا ہی ہے ۔نہ آپ نے فائل دیکھی نہ فیصلہ پڑھا وکیل صاحب آپ نے بے بس کر دیا ۔

توفیق آصف نے جواب دیا کہ وہ ظفر علی شاہ کے وکیل تھے۔

جسٹس عظمت نے کہا کہ آپ نے کیس کو مزاق بنا کر رکھ دیا ہے، کچھ تو پڑھ لیا ہوتا۔خالد انور نواز شریف کے نہیں درخواست گزار کے وکیل تھے۔آپ قانون کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کر رہے ہیں۔

اس پرتوفیق آصف نے کہا کہ مجھے پانچ منٹ دیں درستگی کرتا ہوں ۔پھر کہا کہ خالد انور نے نواز شریف کا دفاع کیا۔

جسٹس اعجازافضل نے ریمارکس دیے کہ خالد انور کے پاس نواز شریف کا وکالت نامہ نہیں تھا۔

توفیق آصف نے کہا کہ لندن فلیٹس التوفیق کیس میں گروی رکھے گئے۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ نے اپنے موکل کو جتنا نقصان پہنچانا تھا پہنچا دیا۔جج صاحب نے ہلکی پھلکے انداز میں بات کی تھی۔

اس پر توفیق آصف نے کہا کہ ہلکی پھلکی بات کا مجھے بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ فیصلے میں لکھیں گے کہ بات ہلکی تھی یا بھاری۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ لگتا ہے آج مجھے عدالت سننا ہی نہیں چاہتی۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ آپ چاہیں تو گیارہ سال تک دلائل دیں لیکن ایک ہی بات بار بار نہ کریں۔

توفیق آصف نے کہا کہ نواز شریف 12 اکتوبر کو گرفتار ہوئے اور معاہدے کے تحت بیرون ملک گئے۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ابھی تک آپ نے جو حوالے دیے ان کا لندن فلیٹس سے کیا تعلق بنتا ہے؟

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ آپ ہمیں وہ پڑھانا چاہتے ہیں جو اس فیصلے میں لکھا ہی نہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات طے شدہ ہے کہ آپ جن فلیٹس کا حوالہ دے رہے ہیں اس سے متعلق فیصلے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔

 

مزید خبریں :