09 فروری ، 2015
کراچی............سانحہ بلدیہ ٹاون سے متعلق رینجرز کی جے آئی ٹی رپورٹ نے بظاہر پورے ملک میں ہلچل مچا کر رکھ دی ہے لیکن تفصیلی جائزے کے بعد اس رپورٹ میں واضح تضادات اور سنگین نوعیت کی ایسی خامیاں پائی گئیں، جن کے باعث رینجرز کی رپورٹ پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ جیو نیوز نے کرڈالا جے آئی ٹی رپورٹ کا پوسٹ مارٹم۔ رپورٹ کے پہلے ہی صفحے پر ایک بہت بڑا تضاد موجود ہے۔پہلی ہی سطر میں تحریر ہے کہ رضوان قریشی کو 2013ء میں غیرقانوی اسلحہ رکھنے کےالزام میں آرٹلری میدان پولیس نے گرفتار کیا اور پھر دوسرے ہی پیراگراف میں تحریر ہے کہ رضوان قریشی سے تحقیقات کے لیے سندھ حکومت نے ایک خط کے ذریعے جوائنٹ انٹیروگیشن ٹیم تشکیل دے دی اور اس لیٹر کا نمبر اور تاریخ دونوں ہی رضوان قریشی کی گرفتاری سےپہلے کی ہیں۔ لیٹر نمبر SO)LE4)/HD/S-16/2011کے مطابق رضوان قریشی کی گرفتاری ہوئی 17 جون 2013ء کو، جے آئی ٹی کی تشکیل 06 ستمبر 2011ءکو ہوئی، یعنی مستقبل شناس محکمہ داخلہ کو پونے دو سال پہلے ہی پتا چل گیا تھا کہ رضوان قریشی کو 2013ء میں گرفتار کیا جانا ہے لہٰذا خط ابھی سے جاری کردیا جائے۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق ملزم نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ اس نے علی انٹرپرائزز کے مالکان سے 20کروڑ روپے بھتہ طلب کیا تھا جس پر فیکٹری مالکان نے ماجد بیگ اور اصغر بیگ کو بتایا۔ واضح رہے کہ یہ وہی ماجد بیگ ہے جس کا نام جے آئی ٹی میں ایک سیاسی جماعت کے عہدیدار کے بھائی کے طور پر لیا گیا ہے اور جے آئی ٹی کے مطابق اس کی گرفتاری کے بعد رہائی بھی فیکٹری مالکان کی سفارش پر ہی عمل میں آئی تھی۔رضوان قریشی نے اپنے بیان میں یہ کہیں نہیں کہا کہ وہ خود بلدیہ فیکٹری کو آگ لگانے گیا تھا اس نے اپنے بیان میں واضح الفاظ میں رحمان بھولا اور اس کے نامعلوم ساتھیوں کے بارے میں کہا ہے کہ انہوں نے بھتا نہ دینے پر فیکٹری میں کیمیکل پھینک کر آگ لگائی۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں ملزم رضوان قریشی سے ایک موٹرسائیکل رجسٹریشن بک کی برآمدگی بھی ظاہر کی گئی ہے۔ جس کا نمبر KGS-2832 تحریرہے لیکن ایکسائز ڈپارٹمنٹ کے ریکارڈ میں اس نمبر کی کوئی گاڑی موجود ہی نہیں ہے۔واضح رہے کہ سانحہ بلدیہ ٹاون کے بعدانکوائریز کا حکم دیا گیا، انکوائریز ہوئیں بھی۔ ان کی رپورٹس بھی آئیں، جن میں واضح طور پر قرار دیا گیا کہ آگ لگنے کی وجہ بھتہ نہیں بلکہ شارٹ سرکٹ تھا۔رینجرز کی جے آئی ٹی رپورٹ میں رضوان قریشی کو سانحہ بلدیہ کا ذمے قرار نہ دیا جانا، ملزم رضوان قریشی کی گرفتاری کی تاریخوں میں تضاد اور اُس سے ایک ایسی موٹر سائیکل رجسٹریشن بک کی برآمدگی جس کا کوئی سرکاری ریکارڈ موجود نہ ہو، ایسی خامیاں اور تضادات ہیں جنہوں نے اس رپورٹ پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔