12 فروری ، 2015
پشاور.........پشاورمیں شہریوں کی سیکڑوں گاڑیاں پولیس اسٹیشنزمیں ناکارہ ہو رہی ہیں۔ پولیس کہتی ہے کہ وہ ان گاڑیوں کا کریں تو کیا کریں ؟ ان گاڑیوں کی حوالگی کے حوالے سے پالیسی نہ ہونے کے باعث یہ گاڑیاں خود ان کے لئے درد سربنی ہوئی ہیں۔ کاٹھ کباڑنظرآنے والی یہ گاڑیاں وہ ہیں ،جنہیں کسی غیرقانونی فعل میں استعمال کیا گیا۔ مالکان خود نجانے کہاں ہیں؟ لیکن یہ گاڑیاں برسوں سے تاحال شریک جرم ہونے کی سزا بھگت رہی ہیں۔مال مفت دل بے رحم کے مصداق ان گاڑیوں میں بیشتر کے ٹائرز غائب کر دیئے گئے ہیں جبکہ کئی کی سیٹیں اور دروازے اڑا لئے گئے ہیں۔ رہی سہی کسر موسم کی شدت نے پوری کر دی ہے۔ گاڑیوں کے انجن اور گیس کٹس بھی شائد کسی کو چاہئے تھے،تو لے گئے۔ پشاور کا شائد ہی کوئی پولیس اسٹیشن ایسا ہو جہاں ایسی درجنوں زنگ آلود گاڑیاں موجود نہ ہوں، جس پولیس اسٹیشن میں آپ کو یہ گاڑیاں دیکھنے کو نہ ملے تو آپ سمجھ جائیے کہ یہاں کی مال مقدمہ کی گاڑیاں ایسے ہی کہیں نہر کنارے یا پھر کسی ویرانے میں موجود ہوں گی۔ کئی سالوں سے کھڑی یہ گاڑی خود اپنے حال پرنوحہ کناں ہے۔ آرام دہ سیٹیں نہ رہی تو یہاں مکڑیوں نے اپنا مسکن بنا لیا۔ پولیس کہتی ہے کہ ہم ان کا کریں تو کیا کریں؟؟ ایسی گاڑیوں کے حوالگی سے متعلق پالیسی نہ ہونے کے باعث خیبرپختون خوا میں اربوں روپے کی ایک ہزار سے زیادہ گاڑیاں پولیس کی تحویل میں ہیں۔