02 مارچ ، 2015
لاہور..........نامور شاعر ناصر کاظمی کو ہم سے جدا ہوئے 43برس بیت گئے۔گداز،رچاؤ اور انہماک ناصر کاظمی کے ہاں ایسا کہ ان کے اشعار رنگ و نور سے منور ، کلام میں خوشبو،تازگی اور دلکشی کے ساتھ ماضی کی یادوں کے کنکر بھی ملتے ہیں۔غزل کے قدیم پیکر میں جدت کا تڑکا لگانے والے ناصر کاظمی نےاجڑے شہر، جلتے گھر،دلوں کی چیخیں،آنکھوں کی یاس کوگویادلوں میں اتار دیا۔انہوں نے اپنے اندر کے غم کو واحد متکلم کے طور ظاہر کیا،شائد اسی لئے ان کی شاعری زمانوں کی قید سے آزاد رہی ۔”دیوان“ اور ”پہلی بارش“ غزلوں تو”نشاطِ خواب“ نظموں کا مجموعہ ،،منظوم ڈرامے ”سر کی چھایا“ اور نثر ی مضامین ”خشک چشمے کے کنارے“ بھی شائع ہو چکے ہیں ۔ ناصر کاظمی نے انفرادیت کا وہ چراغ جلایا جو ان کے جانے کے بعد زیادہ منور ہو گیا ،تاہم کڑی دھوپ کا مسافر ناصر کاظمی اب دکھائی نہیں دیتا۔