دنیا
30 مارچ ، 2015

گزشتہ30 سے40 سالوں میں لاکھوں لڑکیاں بھارتی سماج سے غائب

گزشتہ30 سے40 سالوں میں لاکھوں لڑکیاں بھارتی سماج سے غائب

کراچی.... رفیق مانگٹ.... امریکی اخبار”ہفنگٹن پوسٹ“ نے بھارت میں خواتین کی بدحالی کی تصویر کشی کرتے ہوئے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ بھارت میں بیٹیاں اب معاشی بوجھ سمجھی جانے لگی ہیں، اسی وجہ سے اب بیٹیوں کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی ماردیا جاتا ہے۔ رحم مادر میں بیٹوں کا قتل گزشتہ چار دہائیوں میں بھارتی معاشرے کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے اور اس نے بھارت کے سماجی اور ثقافتی تانے بانے کا شیرازہ بکھیردیا ہے۔ بھارتی سماج میں لڑکی کی دنیا میں آنے کی خبر جان بوجھ کر اسقاط حمل کا عمل بن رہی ہے۔ گزشتہ تیس سے چالیس سالوں میں لاکھوں لڑکیاں بھارتی سماج سے غائب ہیں۔ 2011کی مردم شماری کے مطابق سات سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی تعداد میں انتہائی کمی ہوگئی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو خدشہ ہے کہ بھارت میں گزشتہ ایک عشرے میں 80لاکھ لڑکیوں کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی قتل کردیا گیا۔ کینیڈا کے ایک تھنک ٹینک گلوبل گرل پاور کے مطابق گزشتہ صدی میں بھارت میں پانچ کروڑ لڑکیوں کو رحم مادر میں قتل کردیا گیا۔ بھارت میں نوے کی دہائی کے اوائل میں الٹرا ساونڈ آیا۔ طبی شعبے نے اسے سونے کی کان سمجھا اور انہوں نے بچیوں کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی مارنا شروع کردیا۔ شادی کے وقت بیٹی کو جہیز کی ادائیگی سے ممکنہ طور پر بچنے کے لئے الٹرا ساونڈ کے بارے اسی کی دہائی میں ایک بدنام زمانہ اشتہار بازی کی گئی جس کے الفاظ یہ تھے کہ”آج اسقاط حمل پر پانچ ہزار خرچ کرو اور کل پچاس ہزار کا جہیز دینے سے اپنے آپ کو بچاو“۔ اس وقت الٹرا ساونڈ انتہائی منافع بخش کاروبار کا روپ لے گیا۔ بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق2010 میں جہیز سے متعلقہ 8391قتل یا خودکشیوں کے واقعات سامنے آئے۔ ایک مقبول بھارتی طبی جریدے کا کہنا ہے کہ جہیز کی پریکٹس اس حد تک پھیل چکی ہے کہ اب ان کمیونیٹیز اور ذاتوں میں بھی جہیز مقبول ہورہا ہے، جن کے ہاں اس کا پہلے کبھی تصور نہیں تھا۔ بھارت میں خواتین کے استحصال اور ان کے ساتھ ناروا سلوک پر مضمون میں خواتین اور ہاتھیوں کے ساتھ بدسلوکی میں مماثلت بتائی گئی۔ ایشیائی خواتین اور ہاتھیوں کی بدحالی کی صورت حال یکساں ہے۔ دانتوں کے لئے نر ہاتھیوں کی ہلاکت اور کرتبوں کے لئے ان کو پکڑنے کا عمل سے دنیا بھر میں ہاتھیوں کی تعداد میں کمی ہوگئی اور کئی علاقوں میں ایک سو ہتھنیوں کے مقابلے میں ایک ہاتھی رہ گیا۔ اسی دوران بچیوں کی پیدائش کے خواف سے اسقاط حمل سے خواتین کی تعداد میں کمی ہوگئی ہے۔ بھارت میں مارچ2015تک ایک ہزار مردوں کے مقابلے میں 943خواتین کی شرح ہے۔ اب بھارت ڈیموگرافک ٹائم بم پر کھڑا ہے، کیونکہ بھارت میں خواتین کی آبادی کے مقابلے میں تین کروڑ70لاکھ مرد زیادہ ہیں، جو شادی کی عمر کو پہنچ چکے ہیں۔ مضمون نگار نے طنزیہ لکھا کہ کوئی مرد کسی عورت کے بغیر تو پیدا نہیں ہوگا۔ وہ بھارتی معاشرہ جہاں کبھی عورت کو دیوی کا روپ دے کر پوجا کی جاتی تھی، وہاں اس کا یہ استحصال پانچ سو سال قبل مسیح سے جاری ہے۔ 2010میں راجیہ سبھا نے خواتین کی نمائندگی کا ایک بل پاس کیا جس کے تحت بھارتی پارلیمنٹ اور ریاستی قانون ساز اداروں میں خواتین کے لئے 33فیصد نشستیں مختص کی گئی، مگر خاصی بڑی تعداد میں نمائندگی کے باوجود وہ خواتین کی حفاظت میں ناکام ہیں۔ اصل میں بھارت خواتین کے لئے دنیا کا چوتھا خطرناک ملک ہے۔ مضمون کے مطابق مردوں کے غالب بھارتی معاشرے میں لالچ اور سماجی مرتبے کا بھرم۔ ثقافتی رواج کی غلط تشریحات اورفیصلہ سازی میں حقائق سے چشم پوشی ایک جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔ ثقافت اور مذہب کے نام پر یہ سب کیا جارہا ہے۔ دانتوں کے لئے ہاتھیوں کی ہلاکت اور منافع کے لئے ان کا استعمال جب کہ جہیز کے لئے خواتین کا استحصال اور انہیں بھینٹ پر چڑھا دینے والے عمل جاری ہیں۔ بیسویں صدی میں جہیز سے متعلقہ مسائل بہت شدت کے ساتھ سامنے آئے۔ جہیز کے لئے خواتین کو ہراساں، تشدد، جسمانی ٹارچر یہاں تک کہ قتل جیسے مسائل عام ہوئے۔ خاص کر بھارت کے نچلے طبقے جو ان کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے، جہاں جہیز دینے سے انکار کیا یا ان کے مطالبات کے پورا نہ ہونے کی صورت میں جہیز سے متعلقہ جرائم پھیل گئے۔ نیشنل سینٹر فار بائیو ٹیکنالوجی انفارمیشن کہتی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کا پھیلاو اور غلط استعمال دگنے سماجی مسائل کا سبب بنا، خاص طور پر نچلے طبقے کی خواتین کے لئے جیسا کہ جہیز، خاندانی نام، کفالت کے لئے بیٹے کی طرف دیکھنے کے رجحانات نے بیٹیوں کی پیدائش سے قبل ہلاکتیں شروع کردیں اور خاص کر شمالی ریاستوں میں درمیانے اور اعلیٰ کھاتے پیتے گھرانوں میں یہ مکروہ فعل رواج پایا۔

مزید خبریں :