21 مئی ، 2015
کراچی........ایگزیکٹ کا اسکینڈل سامنے آنے کے بعد لوگوں کے ذہنوں میں کئی سوال گردش کر رہے ہیں۔ ایگزیکٹ کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا؟ اتنا پیسہ آیا تو اس پر ٹیکس اتنا کم کیوں دیا گیا؟ جعلی ڈگریاں دینے والے اداروں کا کھرا ایگزیکٹ کے دفتر میں کیوں جاتا ہے؟ شعیب شیخ کا کہنا ہے کو جن اداروں کو جعلی کہا گیا، ان کے پتے رپورٹر سے پوچھیں، تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ کوئی ادارہ ڈگری دینے کا مجاز ہے بھی یا نہیں۔ دنیا بھر میں جعلی ڈگریاں بیچنے میں مبینہ طور پر ملوث کمپنی ایگزیکٹ کے سی ای او سے ٹی وی پروگراموں میں ان کے ادارے پر لگائے جانے والے الزامات کے بارے میں سوالات کیے گئے۔ شعیب شیخ نے اعتراف کیا کہ ایگزیکٹ جن اداروں کو سہولتیں فراہم کرتا ہے وہ قانونی ہوتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں دیکھتے کہ وہ ادارہ ڈگریاں جاری کرنے کا مجاز یا accredited ہے یا نہیں۔ ایگزیکٹ کے سی ای او نے اپنے کلائنٹس کو دی جانے والی سروسز کو بلے سے تشبیہ دیتے ہوئے کچھ یہ منطق پیش کی۔تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ مثلاً میڈیکل کی جعلی ڈگری لے کر اگر کوئی ڈاکٹر کسی مریض کو مار دے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ نیویارک ٹائمز میں سامنے والے جعلی اداروں کے پتے پوچھے گئے تو انہوں نے کہا کہ یہ پتے اخبار کے رپورٹر سے پوچھیں۔ ایگزیکٹ کے چھ لاکھ شیئرز میں سے صرف دو شعیب شیخ اور ان کی اہلیہ کے ہیں۔ باقی شیئرز کس کے ہیں؟ اس سوال پر شعیب شیخ نے خود کو ایگزیکٹ ایل ایل سی کا مالک بتایا، لیکن ساتھ ہی ایک اور کمپنی کو بھی مالکان میں شامل کر دیا۔