06 جولائی ، 2015
لاہور .....معروف دانشور،صحافی اور ماہر تعلیم پروفیسر وارث میر کی برسی کے موقع پر ان پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ’’وارث میر کہانی ‘‘ کے نام سے شائع کردیا گیا ہے۔ 287صفحات پر مشتمل ’وارث میر کہانی‘ وارث میر فاؤنڈیشن کے تحت شائع کی گئی ہے ،جس میں ملک کے نامور قلمکاروں ،سیاسی کارکنوں اور اسکالرز نے وارث میر پر لکھے گئے، اپنے مضامین میں ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پرروشنی ڈالی ہے ۔ کتاب کووارث میر کے صاحبزادے اور سینئر صحافی عامر میر نے مرتب کیا ہے ، جن اہل قلم کے مضامین اس کتاب کی زینت بنائےگئے ہیں، ان میں حبیب جالب ،بشری رحمان ،کرار حسین ،محمود مرزا،احمد بشیر ،عاصمہ جہانگیر،فاروق حیدر مودودی ،مجیب الرحمان شامی ،عطاالحق قاسمی ، نذیرناجی ، سہیل وڑائچ ،عباس اطہر ،خالد احمد ،اعتزازاحسن ،افضل توصیف ،انورقدوائی ،قاضی جاوید ،حسن نثار،ارشاد حقانی ،حامدمیر،،منوبھائی اور دیگر شامل ہیں ۔کتاب کے پیش لفظ میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ پاکستان کی 68سالہ تاریخ میں وارث میر وہ واحد صحافی ہیں، جنہوں نے کبھی اپنے قلم کی حرمت پر حرف نہیں آنے دیا۔آمریت کے کٹھن دور میں بھی ان کے قلم کی کاٹ برقرار رہی ۔انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں سچ کا بلا جھجک اظہار کیا ،ان کی مشہور کتابوں میں حریتِ فکر کے مجاہد، کیا عورت آدھی ہے ،اورفوج کی سیاست شامل ہیں ، وارث میر پنجاب یونیورسٹی شعبہ صحافت کے چیئرمین بھی رہے ۔ان کی خدمات کے اعتراف میں 23مارچ 2013ء کو انہیں ہلال پاکستان کا اعزاز دیا گیا،2013ء میں وارث میر کوبنگلا دیش کی حکومت نے انہیں ملک کے اعلی ترین سول اعزاز سے نوازا۔ وارث میر کا انتقال 1987میں ہوااور وہ پنجاب یونیورسٹی قبرستان میں مدفون ہیں ۔