02 اکتوبر ، 2015
کراچی.........سپریم کورٹ نے ڈاکٹر عاصم حسین کو مرضی کے معالج سے علاج کی بہترین سہولیات فراہم کرنےکاحکم دے دیاہے ۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ریمارکس دیے کہ ولی بابر اور سبین محمود قتل کیس میں گواہوں کو قتل کردیا گیا، ہم نہیں چاہتے کہ ڈاکٹر عاصم حسین کے ساتھ بھی ایسا ہو۔
جسٹس سرمد جلال عثمانی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کےدورکنی بنچ نے ڈاکٹرعاصم حسین کو اسپتال سے ڈسچارج کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔ بنچ کے سربراہ نے استفسار کیا کہ کیا ڈاکٹر عاصم رینجرز کی حراست میں ہیں؟؟
درخواست گزار کے وکیل عابد زبیری نے کہا کہ طبیعت خراب ہونےپران کےموکل کوعارضہ قلب کے اسپتال لے جایا گیا تھا، ابھی ٹھیک نہیں ہوئے تھے کہ اسپتال سے ڈسچارچ کردیا گیا کیونکہ رینجرز کے ڈاکٹر نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم ٹھیک ہیں تاہم اس متعلق کوئی رپورٹ نہ دی ، انہیں دوبارہ اسپتال میں داخل کرایا جائے۔
جسٹس سرمد جلال عثمانی نے ان سے استفسار کیاکہ کیاانہیں یقین ہے کہ وہ اسپتال میں محفوظ رہیں گے۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے درخواست گزار کے وکیل عابد زبیری کومخاطب کرکےکہاکہ کراچی میں سیکیورٹی کی صورتحال کا انہیں علم ہے ،کہیں ایسا نا ہو کہ انہیں اسپتال بھیجیں تو کوئی اور مسئلہ کھڑا ہوجائے، ولی بابر اور سبین محمود قتل کیس میں گواہوں کو قتل کردیا گیا تھا، ہم نہیں چاہتے کہ ڈاکٹر عاصم حسین کے ساتھ بھی ایسا ہو۔
جسٹس دوست محمد کھوسہ نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے ڈاکٹر عاصم کی جان کو خطرے کا اظہار کیا ہے، ہمیں توازن رکھنا ہے کہ ڈاکٹر عاصم کی حفاظت ہو اور ان کا علاج بھی ہو۔ ڈاکٹر عاصم کو رینجرز کی حراست سے نکالنا خطرے سے خالی نہیں، ایسا نا ہو کہ ڈاکٹر عاصم کو باہر نکالیں اور کوئی گولی یا چاقو کا وار ہوجائے۔
عدالت نے رینجرز کو ڈاکٹر عاصم کو ان کی مرضی کے معالج سے علاج کی سہولت دینے کی ہدایت کی جبکہ ڈاکٹر عاصم حسین کو اسپتال سے ڈسچارج کرنے کے خلاف درخواست پر وزارت داخلہ، رینجرز اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔ کیس کی مزیدسماعت 7 اکتوبرکوہوگی ۔