04 اکتوبر ، 2015
کراچی…ساگر سہندڑو …صوبہ سندھ میں تعلیم کی حد درجہ خراب صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے جہاں حکومت اور بڑی بڑی سماجی تنظیمیں غیر موثر نظر آتی ہیں وہیں سندھ کی بہادر بیٹیاں متحرک دکھائی دیتی ہیں۔
صحرائے تھر کی معذور آسو بائی کولہی سے شمالی سندھ کی عاصمہ ابڑو تک،وسطی سندھ کی حاکم زادی سے قمبر کی بی بی باگڑی اور عائشہ لغاری تک نصف درجن سے زائد قابل فخر بیٹیاں ہیں جو تمام مجبوریوں، محرومیوں اور مشکلات کو بھلا کر تعلیم عام کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
عمرکوٹ کی آسو بائی کولہی بھی انہی میں سے ایک ہیں جو پچھلے کئی سالوں سے ’اپنی مدد آپ‘ کے تحت اور کسی بھی حکومت کی سرپرستی کے بغیر سندھ میں تعلیم کے چراغ روشن کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
عمرکوٹ کے تعلقہ کنری کی یوسی ولی محمد کے چھوٹے سے گاؤں میں 13ستمبر 1994ء کو آنکھ کھولنے والی آسو بائی نے دو سال پہلے ڈگری کالج کنری سے گریجویشن کیا۔ وہ اپنے گاؤں کے غریب بچوں کو انٹر کرنے کے بعد سے پڑھارہی ہیں حالانکہ بچپن میں بخار کے باعث عطائی ڈاکٹر کی جانب سے لگایا گیا انجکشن آسو بائی کا بایاں پاؤں مفلوج کرگیا تھا۔
روزنامہ جنگ کے اس نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے آسو بائی نے بتایا” ان کے والد کا خواب تھا کہ وہ پڑھ لکھ کرٹیچر بنیں اور گاؤں کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر یں لیکن خواب کے حقیقت میں آنے سے پہلے ہی ان کے والد ہیپا ٹائٹس کے مرض میں مبتلا ہوکر اس دنیا سے چل بسے جس کے بعد ان کے تعلیمی سفر کو ان کی والدہ نے جاری رکھا۔
تقریباً 400گھروں والے ان کے گاؤں کی آبادی 4 ہزار سے زائد افراد پر مشتمل ہے لیکن گاؤں میں آسو بائی کے علاوہ کوئی بھی گریجویٹ نہیں ۔
آسو بائی کولہی نے جنگ کو بتایا ”پیپلز پارٹی کے رہنما علی مردان شاہ اور سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن سمیت دیگرتنظیموں کی مدد سے انہوں نے چار کمروں پر مشتمل اپنے والد کمبھو مل کے نام سے اسکول کی عمارت بنوائی ہے جس میں گاؤں کے پانچ سو سے زائد بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔“
آسو بائی کولہی نے زیادہ سے زیادہ بچوں کو پڑھانے کے لئے اسکول میں چند اور خواتین کو بطور استاد بھی مقرر کر رکھا ہے تاہم ان کی تنخواہیں این سی ایچ ڈی کے تحت چار پانچ مہینے بعد اور وہ بھی اس وقت ملتی ہے جب یہ احتجاج کرتی ہیں یا پھرکسی اخبار میں تنخواہ نہ ملنے کی خبر لگتی ہے۔
آسو بائی کو ان کی خدمات کے عوض مختلف تنظیموں اورتعلیمی اداروں کی جانب سے 2ایوارڈز اور10 سرٹیفکیٹس بھی مل چکے ہیں جن میں ہیومن رائٹس کی جانب سے دیا گیا لیجنڈ ایوارڈ، شاہ لطیف یونیورسٹی کی جانب سے دیا گیا امن دوست ایوارڈ اورحکومت کی جانب سے دیا گیا بے نظیر بھٹو ایوارڈ نمایاں ہیں۔