07 نومبر ، 2015
کراچی…ساگر سہندڑو…کراچی کی مصروف ترین ’شاہراہ فیصل‘ کے ایک کنارے پر واقع مسیحی برادری کے تاریخی ” گورا قبرستان “ کو کون نہیں جانتا۔ دفتر سے گھر آتے جاتے اور اندرون شہر سے بیرون شہر سفر کرنے والوں کی گورا قبرستان پر نظر ضرورپڑتی ہے۔
لگ بھگ پچیس ایکڑ پر پھیلے اس تاریخی قبرستان کی بنیاد 1850ء سے پہلے انگریزوں کے دور میں رکھی گئی، جس وجہ سے اسے گورا قبرستان کہا جاتا ہے، تاہم اس قبرستان میں پہلی تدفین کب ہوئی اس سے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن قبرستان میں سب سے پرانی قبر 1885 کی موجود ہے۔ قبرستان میں1887 اور 1891 کی قبریں بھی زبوں حالت میں موجود ہیں، جن پر اس زمانے کے قیمتی پتھر پر سال اور تاریخیں درج ہیں۔
’جنگ ویب ڈیسک‘ کے نمائندے سے گفتگومیں گورا قبرستان کے سیکریٹری ایڈمنسٹریشن انور سردار خان نے بتایاکہ ان کے پاس موجود قبرستان کے ریکارڈ کے مطابق اس میں 1930 قبریں ہیں ،جن میں 3 لاکھ کے قریب لوگ دفن ہیں۔
انور سردار خان کی یہ بات یقیناً چونکا دینے والی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ گورا قبرستان کی ایک قبر میں3 سے 4 آدمی دفن ہیں، جگہ کی کمی اور مجبوری کے باعث گورکنوں نے بڑی مہارت سے ایک قبر میں ایک سے زائد لوگ دفنا ئے ہیں۔
گورا قبرستان کی دیکھ بھال کیلئے 14 ملازم رکھے گئے ہیں، جن کو قبرستان انتظامیہ تنخواہ ادا کرتی ہے، قبرستان میں کل وقتی 5 گورکنوں اور 5 چوکیداروں سمیت 3 خاکروب اور ایک سپروائزر مقرر کیا گیا ہے۔ قبرستان کے ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے 4 ممبران ہوتے ہیں، جن میں سے 2 پروٹیسٹنٹ اور 2 رومن کیتھولک فرقے کے ممبران ہیں جبکہ سیکریٹری ایڈمنسٹریشن کو چرچ آف پاکستان مقرر کرتا ہے، جس کی مدت 5 برس ہوتی ہے،اس مدت کے بعدانتخابات کے تحت ایڈمنسٹریشن کے سیکریٹری کو منتخب کیا جاتا ہے، جو قبرستان کی دیکھ بھال کیلئے چرچ آف پاکستان کے نمائندے کا کام کرتا ہے ۔
قبرستان کے سیکریٹری ایڈمن سردار انور خان کا کہنا تھاکہ گورا قبرستان چرچ آف پاکستان اور رومن کیتھولک کے ماتحت کام کرتا ہے، لیکن قبرستان میں عیسائیوں کے دونوں فرقوں کے لوگ دفن ہیں۔ انور سردار خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عیسائیت میں فرقوں کی کوئی تکرار نہیں ہے ،جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ قبرستان میں پروٹیسٹنٹ اور رومن کیتھولک فرقے کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دفن ہیں جبکہ ایڈمنسٹریشن کمیٹی کے ممبران بھی دونوں فرقوں سے لئے جاتے ہیں۔
قبرستان میں برطانوی راج میں کراچی کے کلیکٹر سر ہینری اسٹیولی لارینس کی بیوی ” فلس لوئس لارینس “ کی قبر بھی یہیں موجود ہے۔فلس لوئس کی قبر پر 30 جولائی1912ء کی تاریخ درج ہے جبکہ قبر کے لئے مغل دور کی طرز تعمیرپر الگ کوٹھڑی بنائی گئی ہے۔فلس لوئس کے3 بچے تھے اور ان کی موت ایک روڈ حادثے میں ہوئی تھی۔ ان کے شوہر ہینری اسٹیولی سے انہیں بہت محبت تھی، جس وجہ سے انہوں نے بیوی کی یاد میں قبرستان کے کونے میں الگ کوٹھی بنوائی، جو اس وقت رہائشی آبادی کے گھیرے میں آچکی ہے،کوٹھڑی کے دائیں، بائیں اور سامنے والی طرف سے مسلم آبادی کے گھر بن چکے ہیں جبکہ فارغ اوقات میں آبادی کے بچے وہاں کرکٹ بھی کھیلنے آیا کرتے ہیں۔
قبرستان کے پیچھے بڑھتی ہوئی رہائشی آبادی نے قبرستان کے ایک حصے کو کوڑا کرکٹ پھینکنے والی جگہ کے طور پر استعمال کر رکھا ہے۔ قبرستان انتظامیہ کی جانب سے بار بار کہنے کے باوجود رہائشی آبادی نے کچرہ پھینکنے کے سلسلے کو ختم نہیں کیا بلکہ الٹا قبرستان انتظامیہ کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
قبرستان کے دائیں جانب رہائشی آبادی قبرستان کی چاردیواری کے اندر آباد ہوچکی ہے، جسے دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آنے والے برسوں میں رہائشی آبادی مزید بڑھ کر اندر قبرستان میں آباد ہوجائے گی۔