Geo News
Geo News

دنیا
19 نومبر ، 2015

تنخواہوں کا فرق ختم ہونے میں 118 برس لگیں گے ،عالمی اقتصادی فورم

تنخواہوں کا فرق ختم ہونے میں 118 برس لگیں گے ،عالمی اقتصادی فورم

لندن.........ورلڈ اکنامک فورم نے اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ دنیا میں مردوں اور خواتین کو ملنے والی تنخواہوں میں پایا جانے والا فرق ختم ہونے میں مزید 118 برس لگیں گے۔

ورلڈ اکنامک فورم کی دنیا میں صنفی تفریق پر مبنی رپورٹ کے مطابق اس وقت خواتین کو وہ معاوضہ مل رہا ہے جو مردوں کو 2006 میں ملتا تھا۔فورم کے خیال میں 2133 میں مردوں اور خواتین کی تنخواہوں میں فرق ختم ہو جائے گا۔

رپورٹ کے مطابق خواتین اور مردوں کو ملنے والے معاوضوں میں فرق کو ختم کرنے کی پیش رفت حالیہ برسوں رک گئی اور یہ ایسے وقت ہوا ہے جب زیادہ خواتین ملازمتوں میں آگے آ رہی ہیں۔حقیقت میں ایک دہائی پہلے کے مقابلے میں دنیا میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد میں ایک ارب کا یعنی تقرییاً ایک چوتھائی اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ میں جن 145 ممالک میں مساوی معاوضوں کا جائزہ لیا گیا ہے ان میں آئس لینڈ سب سے بہترین ملک ہے جبکہ بدترین ممالک میں یمن پہلے اور پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔کئی ممالک میں اب مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ یونیورسٹیوں میں جا رہی ہیں تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے خواتین کو اسے عہدے ملتے ہیں جہاں وہ قیادت کر سکیں۔

ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ میں جائزہ لیا گیا کہ آیا ہر ملک میں خواتین اور مردوں کو مساوی طور پر معیشت، صحت، تعلیم اور سیاست میں مواقع اور حقوق ملتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق شمالی یورپ کے ممالک میں مردوں اور خواتین کے درمیان تفاوت سب سے کم ہے اور یہ صورتحال دس برس پہلے جیسی ہے۔

145 ممالک کی فہرست میں آئس لینڈ پہلی پوزیشن پر ناروے دوسری، فن لینڈ تیسری اور سویڈن چوتھی پوزیشن پر ہے اور یہ چاروں ملک شمالی یورپ میں ہیں۔

رپورٹ کی مصنفہ سعدیہ زاہدی کے مطابق شمالی یورپ کے ان ممالک کے خاندانوں کے لیے پالیسی دنیا میں بہترین ہے۔ ان کا بچوں کی دیکھ بھال کا نظام بہترین ہے وہاں خاندان کی چھٹی لینے، زچگی اور ولدیت کے بارے میں بہترین قوانین موجود ہیں۔

قطر جیسے ملک میں یونیورسٹی میں زیر تعلیم خواتین کی تعداد مردوں سے چھ گنا زیادہ ہے، بارباڈوس اور جمیکا میں یہ فرق ڈھائی گنا کا ہے۔ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 68 ممالک ایسے ہیں جہاں خواتین ڈاکٹروں، اساتذہ اور وکلا کی تعداد مردوں سے بڑھ چکی ہے۔

مزید خبریں :