01 دسمبر ، 2015
کراچی …غلام مصطفی سولنگی…اگر لاڑکانہ سے نوڈیرو جایا جائے تو نوڈیرو شوگر ملز کے عین سامنے آم اور امرود کے باغات کے درمیان ایک قدیم گاؤں واقع ہے جسے” پیر جو گوٹھ “کہا جاتا ہے۔ تاریخی علمی اور راشدی خاندان کی نسبت سے یہ گاؤں ضلع لاڑکانہ کے خاص گوٹھوں میں شمار ہوتا ہے۔
اسی گاؤں میں ایک تاریخی مسجد بنام ”مسجد الحرام“ ہے۔یہ مسجد ضلع لاڑکانہ کی نہایت قدیم اسلامی عمارتوں میں شمار کی جاتی ہے۔ یوں کہا جائے کہ یہ مسجد اسلامی فن کا وہ نمونہ ہے، جو سارے ضلع لاڑکانہ میں شاید نہ مل سکے۔
یہ مقدس اور معتبر مسجد اس مشہور اور تاریخی گاؤں کے بالکل درمیان میں مستطیل نما بنی ہوئی ہے اور اس کے بیچ میں ایک کشادہ صحن بھی ہے جس میں نمازیوں کی ایک بڑی تعداد نماز ادا کرسکتی ہے۔ یہ مسجد نہایت ہی مضبوطی سے بنائی گئی ہے۔ اس کی بنیادیں بہت ہی گہری رکھی گئی ہیں اور دیوار یں بھی بہت ہی موٹی بنائی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صدیاں بیت جانے کے بعد بھی یہ مسجد ابھی تک اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔
آپ کی معلومات کیلئے آپ کو بتاتے چلیں کہ راشدی سید صاحبان کی طرف سے قائم شدہ اس گاؤں کو ”شاہ جو گوٹھ“ بھی کہا جاتا ہے۔ اس گاؤں کے راشدی پیر مشہور حکیم گزرے ہیں۔ طب کے حوالے سے اس گاؤں کو ”چھوٹا یونان“ بھی کہا جاتا ہے۔
یہ مسجد راشدی خاندان کے نامور عالم اور کامل ولی اللہ پیر سید محمد راشد شاہ روضے دھنی کے بھائی پیر سید مرتضیٰ علی شاہ عرف پکھے وارو شاہ نے 1228 ہجری میں تعمیر کروائی تھی۔ اس حساب سے اس مسجد کو دو صدیاں ہوچکی ہیں۔
نوجوان تاریخ دان امام راشدی کی یہ رائے ہے کہ ”یہ مسجد حضرت پیر سید مرتضیٰ علی شاہ کے فرزند سید محمد پناہ شاہ عرف پیر سائیں پنہل نے بنوائی تھی۔ آپ خود میہڑ (ضلع دادو) کے مشہور گاؤں بْٹ سرائی میں مدفون ہیں۔“ مسجد کی تعمیر کا سال فارسی کتبے کی صورت میں پتھر پر کنندہ محراب کے اوپر آویزاں ہے جو 1228 ہجری ہے۔
جیسا کہ مسجد الحرام کلہوڑا دور میں تعمیر ہوئی تھی اس لئے اس کا طرز تعمیر سندھ میں موجود کلہوڑا حکمرانوں کی طرف سے تعمیر کروائی گئی مساجد اور دیگر عمارات سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔ ساری مسجد مقامی طور پر عمدہ پکی اینٹوں سے تعمیر شدہ ہے اور اس میں سیمنٹ کے ساتھ پٹ سن کی بوریاں بھی استعمال کی گئی ہیں لہٰذا یہ مسجد بے حد پائیدار ہے۔
مسجد الحرام کے کل تین گنبد ہیں جن کی پیمائش تقریباً ایک جیسی ہے۔ یہ گنبد مسجد کے فرش سے 37 فٹ کی اونچائی پر واقع ہیں۔
مسجد الحرام میں میر محمد معصوم بکھری کا ایک یادگار کتبہ بھی رکھا ہوا تھا جس کا عکس اور تفصیل سندھ کے عظیم تاریخ جان پیر حسام الدین راشدی کی مشہور کتاب ”نواب میر محمد معصوم بکھری“ میں موجود ہے۔
کسی اونچی جگہ پر کھڑے ہو کر دیکھا جائے تو اس مسجد کی تعمیر اور تعمیراتی خوبیوں کا صحیح اندازہ ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ رازوں نے کس طرح اس چھوٹی سی مسجد کو تعمیر کیا ہے۔
اس کے علاوہ مسجد الحرام کی ساری دیواروں پر بغیر استرکاری کے تعمیر دیکھ کر اعلیٰ کاریگری اور ہنرمندی کی داد دیئے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ یہ کاریگری اور مہارت کا ہی کمال ہے کہ دو سو سال گزر جانے کے باوجود بھی اس مسجد کی تعمیر میں کوئی نقص نہیں آیا۔
مسجد کے اندر دیواروں پر خوبصورت گلکاری کی گئی ہے۔ مختلف اقسام کے پھول اور پودے مسجد کی دلکشی میں بہت اضافہ کرتے ہیں۔
مسجد الحرام کو دیکھنے سے آنکھوں کو ٹھنڈک اور دماغ کو وہ تازگی میسر آتی ہے جس کا کوئی ثانی نہیں۔ یہ مسجد ایک تاریخی یادگار ہے اور سندھ میں کلہوڑا دور کے فن تعمیر کا ایک بہترین نمونہ ہے۔