18 فروری ، 2016
کراچی......وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے آئی جی کو فون کر کے جرائم بڑھنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے، کہتے ہیں کہ کراچی میں بینک ڈکیتیاں اور اسٹریٹ کرائم بڑھ گئے،پولیس روک تھام کیلئے مؤثر اقدامات کرے۔
مگر ایڈیشنل آئی جی سندھ اس سے متفق نہیں، ان کا کہنا ہے کہ شہر میں اسٹریٹ کرائم 30 فیصد کم ہوگئے ہیں۔
کراچی تقریباً دو کروڑ انسانوں کا شہر،جسے شاطر لٹیروں نے ایک ایسے جنگل میں بدل دیا جہاں ڈر کے زور پر ان کا راج چلتا ہے، اگر کہا جائے کہ اسٹریٹ کرائم کرنے والوں کے لیے یہ شہر سونے کی چڑیا بن چکا ہے تو یہ ایسا کڑوا سچ ہوگا جسے حلق سے اتارنا تھوڑا نہیں کافی مشکل ہوگا،کراچی کے عوام کی طرح وزیراعلیٰ سندھ کو بھی یہی لگتا ہے، کہ شہر میں اسٹریٹ کرائم اور بینک ڈکیتیاں خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہیں،جبھی تو سائیں قائم علی شاہ نے کیا آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کو فون۔
پہلے کیا برہمی کا اظہاراور پھر یہ ہدایت کہ اسٹریٹ کرائم اور بینک ڈکیتیوں میں ملوث ملزمان کو گرفتار کرکے رپورٹ پیش کی جائے،یہی نہیں، ساتھ یہ حکم بھی دیاکہ شہر کے تمام ایس ایس پیزاپنے اپنے علاقوں میں جرائم پر قابو پائیںاور سیکورٹی صورتحال بہتر بنائیں۔
آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کا جواب تو منظر عام پر نہیں آیاتاہم ایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق مہر کی معلومات وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی تشویش سے مختلف ہیں۔
مشتاق مہر چیمبر آف کامرس کے دورے پر آئے تو تاجروں سے یہ کہتے نظر آئے،کہ گزشتہ سال نومبر اور دسمبر کی نسبت، اس سال کے ابتدائی دو ماہ کے دوران اسٹریٹ کرائم 30 فیصد کم ہوگئے،اسٹریٹ کرائم کے خاتمے کے لیے 30سے 40 ایسے مقامات کی کڑی نگرانی کررہے ہیں جہاں یہ جرم زیادہ ہوتا ہے،پولیس یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کاروں کے قتل کے اکا دکا واقعات ہوئے،جن میں سے بعض ذاتی دشمنی کا نتیجہ تھے۔
مشتاق مہر نے بتایا کہ دو ماہ میں چار بینک لوٹے گئے ،جن میں تین بینک ڈکیتیوں میں ملوث ملزمان کا سراغ لگالیا، تاہم یہ نہیں بتایا کہ گرفتار کب کریں گے، اب کس کی مانیں، شاہ صاحب کی یا ایڈیشنل آئی جی۔