02 مارچ ، 2016
لاہور......رومان اور رومانویت سے بھرپور شعروں کے موتی پرونے والے عظیم شاعر ناصر کاظمی کے قلم کی تخلیقات کو خاموش ہوئے آج 44 برس بیت گئے، مگر ان کے کلام کی بازگشت ان کے جانے کے بعد بھی کئی دلوں کو مسخر کر رہی ہے۔
انبالہ میں آنکھ کھولنے والے سید ناصر رضا کاظمی ،ایک فطری شاعر تھے، ان کی زمینی احساسات کی آئینہ داری ایسی کہ شعر سننے والا اور پڑھنے والا حیرتوں کی دنیا کا مسافر بن جائے۔
استعاروں کے استعمال میں کمال رکھنے والے چھوٹی بحر کے بڑے شاعر ناصر کاظمی نے اپنے حسن و ذوق سے انفرادیت کا ایسا چراغ جلایا جس کی روشنی گزرتے لمحوں میں اور پھیلتی چلی جا رہی ہے۔
قیام پاکستان پر ہجرت کرنے والے ناصر کاظمی کے چہرے پر ہر دم گہری سوچ، آنکھوں میں زندگی کے احساساتی پہلو بستے تھے۔ رومانوی شاعر نےغزل اور نظم کی ایسی خوشبو پیدا کی جس نے دور تلک اثر چھوڑا۔
ناصر کاظمی عمر بھر ریڈیو سے منسلک رہے۔ناصر کاظمی کا پہلا مجموعہ برگ نے تھا ۔دیوان، پہلی بارش، نشاط خواب، سر کی چھایا، خشک چشمے کے کنارےسمیت دیگرشعری مجموعے اورنثری کتب بھی ناصر کی تخلیقات میں شامل ہیں ۔ ناصر کاظمی کی وفات2 مارچ 1972 کو ہوئی۔