07 جولائی ، 2016
جنگ کےسات برس بعدسامنےلائی گئی برطانیہ کے سرچلکوٹ کی تحقیقاتی رپورٹ نےجہاں حقائق پیش کیےوہیں عراقیوں ہی نہیں برطانوی شہریوں نےبھی بلیئر کو دہشت گرد قرار دیا ہے،عراق جنگ میں مارےگئےایک برطانوی فوجی کی ماں نے ٹونی بلیئر کے خلاف جنگی جرائم کامقدمہ چلانےکامطالبہ کیا ہے۔
برطانیہ کی چلکوٹ تحقیقاتی رپورٹ میں یہ حقائق سامنےآئےہیںکہ عراق جنگ کاقانونی جوازتھااورنہ ہی اس کی ضرورت تھی، صدام حسین کےپاس تباہی پھیلانےوالےہتھیاربھی نہیں تھے،ٹونی بلیئر نے بش کا ساتھ دینے کے لیے اپنی کابینہ تک کو اندھیرے میں رکھا۔
ٹونی بلیئرنےجنگ پرمعافی تومانگی ہے مگرساتھ ہی یہ بھی کہاہےکہ اگرپھرایساکرناپڑاتوبازنہیں رہیں گے، عراق جنگ کا سرےسےقانونی جوازہی نہ ہونےاورجنگ میں برطانوی فوج کی ناکامی پراب مہر لگ گئی ہے۔
2003ءمیں برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلیئرنےعراق جنگ کامقدمہ پارلیمنٹ کےسامنےایسےپیش کیاتھاجیسےدنیامیں امن کاواحدنسخہ صدام کاتختہ الٹنےسےملےگا، اس پر کابینہ تک کواندھیرے میں رکھا۔
اب یہ حقائق سامنےآئےہیں کہ بلیئرنےافغان جنگ سےبھی پہلےامریکی صدر کو وچن دے دیاتھاکہ صدام کوہٹاکرکٹھ پتلی حکومت لانےکےلیےکچھ بھی کرناپڑے، وہ ساتھ دیں گے۔
تحقیقاتی رپورٹ تیارکرنے والےسرچلکوٹ کےنزدیک جنگ کاجوجواز بتایاگیاوہ غلط تھا۔یہ واضح ہے کہ عراق سےمتعلق جوپالیسی بنائی گئی وہ غلط خفیہ معلومات اورجائزوں کی بنیادپرتھی، اسےچیلنج کیاجاناچاہیے تھامگرایسانہیں کیاگیا۔
عراق جنگ میں پانچ لاکھ اوراس کےبعدخانہ جنگی میں مجموعی طورپر دس لاکھ شہری مارےجاچکےہیں، پریس کانفرنس میں ٹونی بلیئرنےمعافی مانگی اوراصرارکیاکہ جنگ کےلیے ان کےارادےغلط نہیں تھے۔
جنگ کےبعدبش کی ری پبلکن پارٹی سےاقتدارچھن گیا مگر اوبا مادور میں مشرق وسطیٰ کےممالک میں خانہ جنگی کوفروغ دے کر بغیر اعلانیہ جنگوں کےحکومتوں کاتختہ الٹاگیا، برطانیہ نےیہاں بھی امریکاکاساتھ دیا، توچیلکوٹ رپورٹ سےکیاسبق سیکھناچاہیے۔
برطانوی وزیراعظم نےکہا کہ برطانیہ رپورٹ سےسبق سیکھتا رہے گا مگر جہاں تک عراق اورشام میں داعش کےخلاف مداخلت کاتعلق ہےعالمی اسٹیج پر برطانیہ اپناکردارکم نہیں کرےگا۔
جنگ کےخلاف لاکھوں افرادکےمظاہروں کی قیادت کرنے والے اپوزیشن لیڈر معاملے پر بولنے کیلئے اٹھےتوانہیں شٹ اپ جیسے غیرمناسب الفاظ سنناپڑے۔
عراق جنگ کوسفارتکاری کی سب سےبڑی آفت قراردیتےہوئے جرمی کاربن نےکہاکہ اس جنگ نےسیاست، اداروں اور حکومت پرعوام کااعتمادختم کردیااورثابت بھی کیاکہ حکمران طبقہ غلط اورعوام درست ہوسکتےہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونیچادکھاکرمسلط کی گئی اس جنگ سےتجزیہ کاروں کےنزدیک امریکااوربرطانیہ نےکچھ نہیں سیکھا، شام میں روس کی مداخلت نہ ہوتی تو مشرق وسطیٰ میں خانہ جنگی کے ذریعے حکومتیں الٹنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا جاتا۔
اکیسیویں صدی میں بھی سفارتکاری کامطلب سفاک خوں ریزی ہی رہا تو چلکوٹ کی رپورٹ کتابوں اورزبانی جمع خرچ ہی کے کام آئےگی۔