کاروبار
07 اگست ، 2016

پاکستان میں کار کمپنیاں اپنی استعداد کے مطابق گاڑیاں تیار نہیں کر رہیں

پاکستان میں کار کمپنیاں اپنی استعداد کے مطابق گاڑیاں تیار نہیں کر رہیں

پاکستان میں کاریں تیارکرنے والی کمپنیاں اپنی استعداد کے مطابق گاڑیاں تیار نہیں کر رہی ہیں جس کی وجہ سے ایک طرف تو مقامی گاڑیوں کی قیمت زیادہ ہے دوسری جانب بیرون ملک سے نئی گاڑیاں درآمد ہوتی ہیں، یہ بات انجینئرنگ ڈیولپمنٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو طارق اعجاز چوہدری نے ایف پی سی سی آئی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے آٹوموٹیو میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے بتائی.


کمیٹی کی صدارت چیئرمین غضنفر علی خان نے کی، اجلاس میں انجینئرنگ سیکٹر اور خصوصاً آٹو انڈسٹری سے متعلق مختلف اُمور زیربحث آئے ۔اجلاس میں مختلف ممالک کے ساتھ ہونے والے پی ٹی اے اور ایف ٹی اے پر بھی تبادلہ خیال اور آٹو انڈسٹری پر ان معاہدوں کے اثرات کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا،۔


چیئرمین کمیٹی غضنفر علی خان کے سوال پر طارق اعجاز نے بتایا کہ جاپانی کمپنی ٹویاٹاجرمن کمپنی برانڈ ولکس ویگن اور فرنچ کمپنی رینالٹ پاکستان میں جوائنٹ وینچر کے لیے دلچسپی رکھتی ہیں مگر استعمال شدہ سکینڈ ہینڈ کاروں کی درآمد اس راستے میں بڑی رکاوٹ ہے،۔


طارق اعجاز نے کہا کہ انجینئرنگ بورڈ مینوفیکچررز اور وینڈرز کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرتا ہے ہم کوالٹی اور صارفین کی سیکورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے، ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں گاڑیاں تیار کرنے والے صارفین کو تحفظ دینے والی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کر رہے، مقامی کار مینوفیکچررز جدید ماڈلز بھی متعارف نہیں کراتے ۔


اُنہوں نے مینوفیکچررز پر زور دیا کہ وہ جدید ٹیکنالوجی اپناتے ہوئے معیار بہتر بنائیں، معیار بہتر ہو گا تو ہم اپنی مصنوعات ایکسپورٹ کرنے کے بھی قابل ہو جائیں گے اُنہوں نے کہا کہ وہ کراچی میں ایک ایسا انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے کا سوچ رہے ہیں جو کہ جاپان کے تعاون سے گاڑیوں کی ٹیسٹنگ کرے گا۔


 

مزید خبریں :