20 اگست ، 2016
شام میں مسلسل خانہ جنگی کی وجہ سے لاکھوں بچے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، کسی بچے کی لاش اور کسی زخمی بچے کے مناظر دیکھ کر عالمی ضمیر وقتی طور پر جاگتا ہے اور چند دن بعد لمبی چادر تان کر پھر سو جاتا ہے۔
جیو نیوز نے کچھ عرصہ قبل لبنا ن میں ایسے شامی بچوں سے بات کی ہے ،گھر سے ایک مہینہ بھی دور رہنےکا تجربہ مشکل ہوتا ہے، بچے تو پھر بچے ہیں، لبنان کی وادی بقا میں شامی پناہ گزینوں کے کیمپ میں کھلے آسمان تلے ننھے بچے ایک دو ماہ سے نہیں کئی سال سے مقیم ہیں۔
اس طرح یہاں رہنا، اسکول نہ جانا اور بار بار گھر واپسی کے سوال پر جھوٹے ڈھکوسلے ہتھوڑے کی طرح ان بچوں کے ذہن پر شدید نفسیاتی اثرات ڈال رہے ہیں، بچوں کو اپنے اپنے محلے کے پیارے دوست یاد آتے ہیں۔
یوں اچانک گولیوں کی گونج میں اسکول، محلہ اور گھر سب چھوڑنا بچوں کو اب بھی یا دہے، اپنا کلاس روم اور اسکول کے دوست سب یاد ہیں، واپسی کی بات پر والدین کی جھوٹی تسلیوں سے اب انہیں کوفت ہوتی ہے، اسکول اور دوستوں کی یادیں ان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔
عالمی طاقتوں کی چپقلش اور اسلامی ممالک کی کھینچا تانی نے لبنان میں 5 لاکھ پناہ گزین بچو ں کے ساتھ جونفسیاتی گناہ کیا ہے اس کا اندازہ مشکل ہے۔
بچوں کوشکایت ہے کہ سب نے انہیں برے حال میں چھوڑ دیا ہے، اب تو واپسی کی دعائیں تک پوری نہیں ہو تیں، اب تو ساحل سمندر پر یورپ جانے کے دوران ڈوبنے والے شامی بچوں کی لاش اور زخمی بچے کی تصویروں کا بھی فیصلہ سازوں پر اثر نہیں ہوتا۔