11 ستمبر ، 2016
سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے متاثرین 4سال گزرنے کے بعد بھی انصاف کو ترس رہے ہیں۔واقعے میں فیکٹری مالکان سمیت 13 ملزمان کو بے گناہ قرار دے کر سارا ملبہ 2 مفرور ملزمان پر ڈال دیا گیا ۔
11ستمبر 2012ء کو کراچی کے علاقے سائٹ بی میں واقع علی انٹر پرائزز میں لگنے والی آگ میں 259 افراد لقمہ اجل بن گئے۔سانحہ بلدیہ میں جاں بحق افراد کے اہل خانہ آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔
فیکٹری میں لگنے والی آگ کا مقدمہ 12 ستمبر2012ء کو درج کیا گیا جس میں واقعے کو حادثہ قرار دیا گیا۔کیس میں نیا موڑ اس وقت آیا جب سیاسی جماعت کے کارکن رضوان قریشی نے اپنی جے آئی ٹی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ علی انٹر پرائزز میں آگ لگی نہیں سیاسی جماعت کی جانب سے لگائی تھی۔
جس نے حکومت کو خواب غفلت سے جگایا تو حکومت سندھ نے واقعے کی از سر نو تحقیقات کے لئے 26 مارچ 2015 کو مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی،جس میں نے فیکٹری مالکان سمیت 58 گواہوں کے بیانات قلم بند کئے۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے بعد انکشاف ہوا کہ فیکٹری میں آگ بھتہ نہ دینے پر لگائی گئی۔ سیاسی جماعت کی جانب سے فیکٹری مالکان سے 25 کروڑ روپے بھتہ طلب کیا گیا تھا۔
کیس کا ضمنی چالان 4 سال بعد عدالت میں جمع کرایا گیا جس میں بتایا گیا کہ فیکٹری مالکان سمیت 13 ملزمان کے خلاف شواہد نہیں ملے۔مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں تمام ملبہ 2 مفرور ملزمان ایم کیو ایم کے رہنما حماد صدیقی اور سیکٹر انچارج عبدالرحمن عرف بھولا پر ڈال کر اپنے فرائض پورے کرڈالے۔اس طرح 4 سال بعد بھی 259 کا بے گناہوں کا خون صرف فائلوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔