بلاگ
27 اکتوبر ، 2016

کیا عمران حد سے زیادہ پر اعتماد ہیں؟

کیا عمران حد سے زیادہ پر اعتماد ہیں؟

عمران خان نے اپنے جارحانہ رویہ کے ذریعے نہ صرف حکومت بلکہ حزب اختلاف کو بھی دباؤ میں لے لیا ہے، تاہم اسٹیبشلمنٹ کے حلقے بھی 2نومبر کے اسلام آباد محاصرہ کے ممکنہ نتائج کے بارے میں ان کے اعتماد یا حد سے زیادہ اعتماد پر تشویش زدہ ہیں۔

اس سب کی وجہ سے ملک میں قیاس آرائیاں پھیل رہی ہیں، جن میں تیسرے فریق کی مداخلت بھی شامل ہے۔ ماضی میں اس ’اعتماد‘ نے عمران کو سیاسی طور پر نقصان پہنچایا تھا۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ اس اسٹائل سے انہیں دیگر اپوزیشن رہنماؤں پر سبقت ملی ہے۔ تو کیا اس بار وہ وزیر اعظم نواز شریف کو رائیونڈ چلتا کرسکیں گے یا پھر خود ہی 2014کی طرح بنی گالا واپس لوٹ جائیں گے.

ان کا حد سے زیادہ اعتماد، ان کے لہجے سے جھلکتا ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف کو ’سیکورٹی رسک‘ قرار دے دیا، بلکہ سابق اپوزیشن رہنماؤں کو بھی بدنام کیا اور اسفند یار ولی کو ایزی لوڈ، مولانا فضل الرحمن کو ڈیزل، آصف علی زرداری کو چور، شہباز شریف کو شوباز کہا ہے۔

اس طرح اپنے اور ان کے درمیان واضح اختلاف پیدا کردیا۔ یہ ایسے رہنما کا اسٹائل ہے، جو وزیر اعظم کے ممکنہ استعفی یا آئینی و غیر آئینی طریقے سے حکومت گرانے کے بارے میں بہت پر اعتماد ہے۔ ان کے اس اعتماد کی آخر کیا وجہ ہے۔ بڑے پیمانے پر پرجوش مجمع یا پھر کچھ اور۔

2014ء میں بھی وہ آج جتنے ہی پراعتماد تھے، یہاں تک کہ اس روز بھی جب وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ملاقات ہوئی تھی، مگر آخر میں عمران کو مایوس ہونا پڑا تھا۔ 2014کے برعکس آج ان کے اعتماد کی ایک اور وجہ وزیر اعظم کی ممکنہ سیاسی تنہائی ہے۔

لیکن جس انداز میں وہ دیگر رہنماؤں کو بدنام کر رہے ہیں، اس سے انہیں خود سے دور کر سکتے ہیں، اور متوازی اپوزیشن تحریک انصاف اور مسلم لیگ دونوں کے خلاف اکٹھی ہوسکتی ہے. آئندہ عام انتخابات تک عمران نے پارٹی انتخابات بھی ملتوی کردیے تھے اور جہانگیر ترین، علیم خان، نعیم الحق اور شیخ رشید احمد پر مشتمل اپنی خصوصی مرکزی ٹیم کے ذریعے پارٹی چلانا چاہتے تھے۔

انہیں پرواہ نہیں کہ یہ جمہوری طرز حکمرانی ہے یا آمرانہ۔ پیر کے روز انہیں شرمناک پوزیشن کا سامنا کرنا پڑا، جب ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کے ساتھ افسوس کا اظہار کیا تاکہ 2 نومبر کے مارچ کے لئے ان کی حمایت حاصل کی جاسکے۔ ایک اور عجیب پیش رفت یہ ہوئی کہ انہوں نے مسلم لیگ (ق) کے ساتھ ہاتھ ملایا، جبکہ ماضی میں تحریک انصاف کے رہنما گجرات کے چوہدریوں پر مونس الہی کے لیے ’ریلیف‘ حاصل کرنے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔

ماضی میں وہ چوہدریوں کے بڑے ناقد تھے، جنہوں نے2002 میں پی ٹی آئی کا جنرل مشرف کی پارٹی بننے کا راستہ مسدود کردیا تھا. لیکن ان سیاسی چالوں سے شاید ہی عمران پریشان ہوں، جب تک انہیں عوامی حمایت حاصل ہے. انہوں نے سیاست کے اپنے انداز میں ’یو ٹرن‘ لے لیا ہے۔

مجھے اب بھی یاد ہے کہ جب وہ ابتدائی 90 کی دہائی میں سیاست میں داخل ہوئے، تو وہ چاہے تھے کہ صحافی ان سے کرکٹ کے بارے میں سوال نہ پوچھیں، کیونکہ وہ سیاستدان کے طور پر اپنی ساکھ بنانا چاہتے تھے۔ ان دنوں وہ کرکٹ پر اپنے تبصروں سے شہ سرخیاں بناتے تھے لیکن اب وہ اپنے سیاسی تبصروں سے سرخیاں بناتے ہیں۔

سیاست میں عروج کے لئے انہوں نے کرکٹ میں اپنی شہرت کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب وہ سیاست میں اپنے تمام کرکٹ والے حربہ استعمال کررہے ہیں، جن کا اکثر 1992 کے ورلڈ کپ کے بارے میں انہوں نے ذکر کیا ہے۔ ہر جلسہ میں ان کے کیریئر پر چند منٹ کی دستاویزی فلم دکھائی جاتی ہے۔ انہیں مزہ آتا ہے جب لوگ انہیں کپتان کہتے ہیں۔ وہ جسمانی طور پر موجودہ بہت سے پاکستانی کھلاڑیوں سے زیادہ ’فٹ‘' ہیں، اور شاید اپنی عمر کے سیاست دانوں سے بھی۔

وہ ایک اہم حادثے میں بھی بچ گئے تھے جب وہ اسٹیج سے گرے تھے اور کئی ماہ تک زیر علاج رہے تھے۔ اب وہ 2نومبر کو ’سیاسی ورلڈ کپ‘ کے فیصلہ کن فائنل کے لیے تیار ہو رہے ہیں، جو ان کے کٹر سیاسی حریف نواز شریف کے ساتھ ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ اگر معاملہ ’تھرڈ امپائر‘ کے پاس گیا تو کیا وہ نتیجہ کو قبول کریں گے؟۔ 1996 کے بعد سے سیاست میں ان کی توجہ کرپشن اور احتساب پر ہے، قطع نظر اس سے کہ یہ کیسے ہو اور یہیں وہ اکثر غلط ہوتے ہیں اور ناقدین کو مایوس کرتے ہیں۔

1999 سے 2002 تک جنرل پرویز مشرف کی حمایت کی 2وجوہات تھیں۔ عمران نے سوچا کہ شاید جنرل تمام بدعنوان سیاستدانوں کو جیل میں ڈال دیں گے اور ان کو سزا دیں گے، خاص طور پر نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو۔ دوسی وجہ یہ کہ 2002 میں انہوں نے سوچا کہ مشرف مسلم لیگ (ق) کے بجائے ان کی پارٹی کی ترجیح دیں گے۔ مگر مسلم لیگ (ق) کے ’کنگز پارٹی‘ بننے پر انہوں نے اپنے تعلقات ختم کرلیے تھے۔ لہذا جب انہوں نے نواز شریف کی حکومت کا زوال دیکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے، تو پھر وہ کیسے بھی ہو انہیں اس پر کوئی پریشانی نہیں۔

اپنے سیاست کے انداز میں وہ پرواہ نہیں کرتے اگر یہ زوال ’تیسرے فریق‘ کی مداخلت کے ذریعے بھی آئے. اگرچہ اس کا بہت کم امکان ہے۔ لیکن اگر کوئی نواز شریف اور زرداری کو جیل میں ڈالنے کا وعدہ کرتا ہے، تو وہ ایسے کسی بھی اقدام کا خیر مقدم کرنے کے لئے تیار ہیں۔ جمہوریت، پارلیمنٹ اور آئین کی ان کی اپنی ہی تعریف ہے. لہذا، وہ بمشکل ہی قومی اسمبلی میں جاتے ہیں. کسی بھی فاسٹ باؤلر کی طرح ان کے مسلسل باؤنسرز اور جارحانہ رویہ نے ٹھنڈے کھلاڑی نواز شریف کو بھی اسی لہجے میں جواب دینے پر مجبور کردیا، اور ان کی ٹیم کے کھلاڑی بھی اس چل میں آگئے۔

خیبر پختونخواہ میں انقلاب لائے بغیر اپنی جارحانہ سیاست کے ذریعے عمران نے پی پی پی کو بھی کافی نروس کردیا ہے، جبکہ جے یو آئی اور اے این پی بھی یہ بات جانتی ہیں کہ اگر عمران پر نظر نہیں رکھی گئی، تو ان کا سیاسی کیریئر بھی داؤ پر لگ جائے گا۔ وہ خیبر پختو نخواہ میں چند اصلاحات کے سوا کوئی بڑی تبدیلی نہیں لائے، وہ بھی ابھی تک نافذ نہیں آئیں۔ لیکن کے پی کی حزب اختلاف اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی۔ یہ عمران خان ہے جسے میں سیاست میں داخل ہونے کے دن سے جانتا ہوں. ان کی مقبولیت کی بنیادی وجہ پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) حکومتوں کی بیڈ گورننس رہی ہے.

ان کا اپنے انداز کا جمہوری کلچر ہے اور ان میں ایک ’سویلین ڈکٹیٹر‘ کا رجحان ہے، جسے انہوں نے اپنی پارٹی میں اس وقت ثابت کردیا جب تحریک انصاف کے دو چیف الیکشن کمشنر ریٹائرڈ جسٹس وجیہ الدین اور تسنیم نورانی مستعفی ہوگئے۔ انہیں ذوالفقار علی بھٹو پسند ہیں اور وہ انہیں حقیقی وطن پرست سمجھتے ہیں۔ انہیں دلیری اور عوامی طرز کی وجہ سے شیخ رشید احمد پسند ہیں۔ عمران نے ایک بار راقم کو بتایا تھا کہ انہیں سیاست میں دلچسپی نہیں تھی، لیکن انہیں اس وقت گھسیٹ لیا گیا تھا، جب بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتوں نے رکاوٹیں ڈالی تھیں۔

عمران اور نواز شریف دونوں ہی سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے، دونوں نے مل کر کرکٹ کھیلی، دونوں نے لاہور سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا اور ایک بار دونوں اپنے مشترکہ سیاسی مخالف کے خلاف اکٹھے بھی ہوگئے تھے۔ دونوں نے ابھی تک ایک دوسرے کے خلاف انتخاب نہیں لڑا ہے. آج وہ دونوں روایتی حریف ہیں اور سیاسی محاذ پر ایک دوسرے کو شکست دینے میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں. میں نے ایک صحافی کے طور پر اس وقت سے عمران خان کے سیاسی کیریئر کی کوریج کی جب انہوں نے کراچی پریس کلب کا دورہ کیا تھا اور انہیں1989 ء میں کرکٹ کے میدان میں اپنی خدمات پر کلب کی تاحیات رکنیت دی گئی تھی۔

آج وہ پاکستان کے صف اول کے سیاست ہیں اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں سے مقبولیت میں آگے ہیں۔ لیکن ان کے اندر کچھ شعبوں میں اب بھی فیصلہ سازی میں سیاسی پختگی کا فقدان ہے۔ پی ٹی آئی کو دو دہائیاں لگ گئیں، جب جاکر اس نے2013ء میں پہلی بڑی انتخابی کامیابی حاصل کی اور خیبر پختونخوا میں حکومت تشکیل دے کر اسفند یار ولی خان اور مولانا فضل الرحمن کو حیران کردیا۔

پی ٹی آئی غیر معمولی جماعت ہے، جس نے دائیں بازو اور لبرل جماعتوں دونوں کے سیاسی کارکنوں کو متوجہ کیا، جیسے جماعت اسلامی، پاکستان مسلم لیگ اور عوامی نیشنل پارٹی میاںوالی سے ہونے کے باوجود وہ پشتونوں میں بہت مقبول رہنما ہیں۔ اسی طرح عمران نواز شریف پر اپنے آخری حملہ اور 2 نومبر کے ممکنہ نتائج کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں۔

لیکن ایک روز قبل سپریم کورٹ کی سماعت انہیں پریشان کرسکتی ہے۔ فتح یا شکست ایک طرف، عمران نے طوفان کی طرح ملک کو لپیٹ میں لے لیا ہے، یہ احساس کئے بغیر کہ جب سونامی اسلام آباد سے ٹکرائے گا، تو اس میں بہت بڑا ’خطرہ‘ شامل ہوگا۔ اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ طوفان کس کس سے ٹکرائے گا۔