بلاگ
16 دسمبر ، 2016

کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا

کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا

قائد اعظم محمد علی جناح کا پاکستان دو ٹکرے ہوئے پنتالیس برس ہو گئے لیکن آج بھی مشرقی پاکستان کے ساتھ سابق لکھتے ہوئے ہوئے میری آنکھیں نم ہیں اور دل کی کیفیت کا احاطہ کرنے کے لئے الفاظ میرا ساتھ چھوڑ گئے ہیں کیونکہ میرے خاندان کا شمار ان خاندانوں میں ہوتا ہے جو اپنا گھر بار کاروبار اور آباواجداد کی قبریں ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر اس پاک سرزمین پر بےسروسامانی کی حالت میں وارد ہوئے اور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

میرے والد گرامی محترم سعید بدر بتاتے ہیں کہ 1947 میں لاہور ریلوے اسٹیشن پر لاشوں سے بھری ٹرین دیکھ کر وہ کئی برس پرسکون نیند نہ لے سکے۔ فیروز پور سے ہجرت کے دوران انہوں نے دریائے ستلج کو ہماری ماؤں بہنوں اور بزرگوں کے خون سے سرخ دیکھا۔ میرے دادا جناب حکیم محمد یعقوب مسلم لیگ کے پرستاؤں میں سے تھے اور انہوں نے مسلم لیگ کا بھرپور ساتھ دیا۔

چونکہ والد گرامی پاکستان کے قیام کے سچے واقعات میرےبچپن سے بتا رہے ہیں تو لازمی طور پر اس پاک سرزمین سے محبت ہونا لازمی تھا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کا جب بھی پڑھا اور سنا ہمیشہ دل بھر آیا اور آج بھی یہی کیفیت ہے۔

پروین شاکر کا ہارورڈ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کا مقالہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں میڈیا کےکردار پر تھا جس میں انہوں نے میڈیا کے منفی کردار کے حوالے سے کافی تحقیق کی اور ایک اہم وجہ میڈیا کے منفی کردار کو بھی قرار دیا ۔استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر مہدی حسن نے اس حوالے سے بتایا کہ پروین شاکر نے ان سے رابطہ کیا تھا اور اس کی تصدیق بھی کی تھی۔

میں نے اپنے ایم اے کے مقالے میں بھی جو استاد محترم ڈاکٹر مسکین علی حجازی مرحوم کی زیر نگرانی مکمل کیا اس کا حوالہ دیا کہ اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں غرق کرنے کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں سے ایک ہزار سال کی حکمرانی کا بدلہ لینے کا بھی اعلان کیا ۔

اس مرتبہ بھارت نے سرکاری طور پر 16 دسمبر کا دن منانے کا اعلان کیا ہے اور بنگلا دیش کی حکومت تو پاکستان دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی اور 1971 میں پاکستان کا ساتھ دینے والوں کی تذلیل کر کے پھانسیوں پر لٹکایا جا رہا ہے اور ہم ڈپلومیسی کا طبلہ بجائے جا رہے ہیں ۔بھارت اور بنگلادیش نے مغربی پاکستان اور پاکستانی فوج کے خلاف جو زہریلا پروپیگنڈہ کیا تھا وقت اس کو غلط ثابت کر رہاہے۔

اب ایسے ناقابل تردید حقائق سامنے آئے ہیں جس سے پاک فوج کی نیک نامی میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ بھارتی خفیہ اداروں کا سارا گھناؤنا کرداربے نقاب ہو گیا ہے ۔معروف بھارتی محقق شرمیلا بوس کی کتاب سچ سامنے لانے میں بارش کا پہلاقطرہ ثابت ہوئی ہے۔ان کی کتاب نے پاک فوج کے خلاف بھارتی خفیہ ایجنسی راکے بے بنیاد پروپیگنڈے کی تمام عمارت ہی زمین بوس کردی ہے۔

اس کتاب نے تحقیق کا ایسا دروازہ کھولاہے جس نے آگے چل کرمشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارت اورشیخ مجیب کے خفیہ گٹھ جوڑ کو کھول کررکھ دیا ہے۔ مزید براں ایک بھارتی مصنف اشوک رائنا ہی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ شیخ مجیب اوربھارتی خفیہ اداروں میں 1962سے باہمی رابطے قائم تھے۔

بھارتی مصنف کا کہناہے کہ مکتی باہنی کے قیام سے پہلے ہی بھارتی فوجی مشرقی پاکستان کے باغیوں کے ساتھ مل کر کام کررہے تھے۔بھارتی مصنف کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہرچھ ہفتے کے دوران بھارت دوہزاربنگالیوں کوگوریلا تربیت دیتا رہا جو مکتی باہنی میں شامل ہوکرپاک فوج پرحملے کرتے،را اوربھارتی بارڈرسیکورٹی فورس کی کارروائیاں اس کے علاوہ تھیں۔

بنگلہ دیش کی موجودہ وزیراعظم شیخ حسینہ نے خود اعتراف کیا کہ ا ن کے والد شیخ مجیب نے اکتوبر1969 میں پاکستان توڑنے کاجامع منصوبہ تیارکرلیاتھا۔شیخ حسینہ کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ لندن میں تیارہوا اوروہ خود بھی وہاں موجود تھیں۔

شیخ حسینہ کہتی ہیں کہ لندن کے اس اجلاس میں یہ بھی طے کیاگیا کہ فسادات کاآغاز کیسے ہوگا،علیحدگی پسندوں کو کہاں تربیت دی جائے گی اورانہیں کہاں اورکون پناہ دے گا۔

مشہورزمانہ اگرتلہ سازش کیس کوبھی افسانہ قراردے کرشیخ مجیب کو پھانسنے کی کوشش قراردیاگیا مگرشیخ مجیب کے قریبی ساتھی شاقات علی نے اعتراف کیا کہ اگرتلہ سازش کیس سوفیصددرست تھا۔

بنگلہ دیش اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکررہنے والے کرنل ریٹائرڈ شاقات علی کا کہنا ہے کہ 1966میں مشرقی پاکستان کوالگ کرنے کامنصوبہ بنایاگیا تھاجس کا اعلان شیخ مجیب نے کرناتھا۔پاکستانی حکام کو اس سازش کا بروقت علم ہوگیا اوریوں یہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔

مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کی قتل وغارت گری کا بھی بہت ڈھنڈور اپیٹا گیا۔اس حقیقت سے بھی معروف بنگلہ دیشی صحافی تجمل حسین نے پردہ اٹھایا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن سے پہلے ہی مکتی باہنی کے غنڈوں نے بھارت کے ایماپربڑے پیمانے پرغیربنگالیوں کو قتل کرنا شروع کردیاتھا۔

تجمل حسین کاکہنا ہے کہ فوجی آپریشن میں تو چندبنگالی مارے گئے قتل وغارت کااصل بازار تومکتی باہنی نے گرم کیاجس نے صرف آٹھ ماہ میں پچاس ہزارسے زائدافراد کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ یہ وہ حقائق ہیں جنہیں چارعشروں تک بھارت کے جھوٹے پراپیگنڈے نے چھپائے رکھا مگراب حقیقت روزروشن کی طرح عیاں ہے،اسی لیے اب نریندرمودی بھی پوری ڈھٹائی سے اعلان کرتے ہیں کہ بھارت نے پاکستان توڑنے میں سب سے اہم کردارادا کیا۔

اب ہم سب نے مل کر پاکستان کو بچانا ہے اس کی بنیادوں میں ہمارے آباؤاجداد کا خون ہے ایسا نہ ہو کہ قیامت کے روز وہ ہمارے گریبان پکڑ کر سوال کریں کہ ہمارے خون اور عزت کی لاج رکھی یا نہیں؟؟؟ مومن کیا خوب کہہ گئے ہیں۔

کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی
کبھی ہم کو تُم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم تھے آشنا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو