07 جنوری ، 2017
شاعر مشرق ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال ایک ایسے فلسفی اور مدبر ہیں جن کی ہمہ جہت شخصیت کے مختلف رنگ ہمارے سامنے آ رہے ہیں۔ ہم نے ان کو محض شاعر سمجھ کر رٹ لیا ہے جبکہ اقبال ایک روشن خیال اور مستقبل پرست مفکر ہیں۔ان کی جدید علوم خاص طور پر سائنسی علوم میں دلچسپی ان کی شاعری،خطبات اور دیگر تحریروں سے عیاں ہے۔
ان کی دانش بہت سے جدید علوم کی جامع تھی۔علامہ کا دور وہ تھا جب سائنس نئی کروٹیں لے رہی تھی اور اس کی پرانی بنیادیں منہدم ہو رہی تھیں۔علامہ اقبال ان تبدیلیوں کو بغور دیکھ رہے تھے اور انھیں سراہتے تھے۔ اگر ان کے کمرے میں پڑی کتابوں کی الماری میں جھانکا جائے تو یہ خوش گوار حیرت ہوتی ہے کہ اقبال کا جدید سائنسی علوم کا مطالعہ کس قدر عمیق اور وسیع تھا۔
ان کتابوں میں آئن اسٹائن،میکس پلانک، ہائزن برگ، وائٹ ہیڈ، اڈنگٹن اور دیگر سائنس دانوں اور سائنس سے متعلق لکھنے والے فلسفیوں کی بہت سی کتابیں نظر آئیں گی۔ جب ان کتابوں کی ورق گردانی کی جائے تو جگہ جگہ علامہ نے اپنے قلم سے بہت سی سطروں کو نشان زد کیا ہے جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ یقینا ایک کثیر المطالعہ اور جامع العلوم ہستی تھے۔
انھوں نے جس سائنسی شعبے میں زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے وہ ہے جدید طبیعیات،بالخصوص آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت۔ یہ نظریہ جب منظر عام پر آیا تو بہت کم لوگ اسے سمجھ سکے مگر علامہ اقبال اس کے بہت سے اہم پہلووں سے کماحقہ واقف تھے اور اس کی فلسفیانہ موشگافیوں کا بھی پورا ادراک رکھتے تھے۔
انھوں نے اپنے خطبات میں کئی جگہ اس نظرئیے کے حوالے سے بات کی ہے۔زمان و مکاں علامہ کا محبوب موضوع تھا اور اس کے سائنسی تناظرات پر وہ پورا ادراک رکھتے تھے۔ علامہ کی اس دلچسپی پر اقبالیات کے حوالے سے معروف اعجازالحق اعجاز کی کتاب ”اقبال اور سائنسی تصورات“ میں بھی پہلی مرتبہ اس حوالے سے گراں قدر معلومات دی گئی ہیں۔
اقبال سائنسی منہاج اور استقرائی فکر کو کس قدر اہمیت دیتے تھے اور ان کی نظر اپنے دور کے نت نئے سائنسی اکتشافات کے حوالے سے کس قدرعمیق تھی۔ ستاروں پہ کمندیں ڈالنے سے اقبال کی مراد یہی تھی کہ نوجوان سائنس کی زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کریں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اقبال اردو کے پہلے بڑے شاعر تھے جنھوں نے گہرے سائنسی شعور کا مظاہرہ کیا۔
اگراقبال سے پہلے کی اردو شاعری کا جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں سائنس کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہے اور اگرکہیں ملتا بھی ہے تو بے حد سرسری انداز میںجبکہ اقبال کے ہاں سائنسی شعور بہت پختہ اور وسیع ہے۔اقبال نے جاوید نامہ میں مریخ کے جس مثالی شہر مرغدین کا ذکر کیا ہے تو اس کے جس مرد دانا سے اقبال کی ملاقات ہوتی ہے وہ ایک سائنسی اور روحانی شخصیت ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال سائنس اور روحانیت کی ہم آہنگی کے قائل تھے جو ایک انوکھا اور قابل قدر تصور ہے۔ اقبال زندگی کے ارتقا کے لیے سائنس کو لازمی قرار دیتے ہیں۔ان کے نزدیک زندگی کاارتقا اس تعلق پر منحصر ہے جو اس نے خارجی حقائق سے استوار کیا ہے۔ وہ قرآن کی بنیادی روح کو بھی استقرائی قرار دیتے ہیں۔ان کے نزدیک مسلمانوں کے زوال کا بنیادی سبب استقرائی استدلال سے دوری ہے جو سائنس کی بنیاد ہے۔
اقبال سمجھتے تھے کہ جدید طبیعیات دراصل روحانیت کی طرف ہی محو سفر ہے کیوں کہ یہ مادیت سے اپنا رشتہ توڑتی چلی جا رہی ہے اور اس سفر میں یہ منزل ضرور آئے گی جب طبیعیاتی اور مابعدالطبیعیاتی حقائق ایک ہو جائیں گے۔ اقبال کا فکر و فلسفہ مذہب، فلسفہ اور سائنس کے بہترین عناصر کی ہم آہنگی پر مشتمل ہے اور اس کا ایک واضح مقصد انسان کی مکمل اور ہمہ گیر فلاح ہے۔
اقبال زمان کی آزاد حیثیت کے قائل ہیں اور ان کے نزدیک زمان کا مسئلہ انسانی خودی اور تقدیر سے گہرا انسلاک رکھتا ہے۔اقبال ہائزن برگ کے نظریہ لاتعین کو بھی سراہتے ہیں کیوں کہ یہ میکانکی جبریت کی بجائے آزاد ارادے کی طرف دلالت کرتا ہے۔
اقبال کائنات کے مسلسل تخلیقی عمل کے قائل ہیں اور ان کے نزدیک دمادم صدائے کن فیکوں آرہی ہے۔ اقبال پلانک کے کوانٹم نظریے کو بھی ستائش کی نظر سے دیکھتے ہیں. وقت آگیا ہے کہ اب ہم شاعر مشرق کے ان سا ئنسی انداز فکر کے تناظر میں ان کا مطالعہ کریں۔