16 جنوری ، 2017
پچھلے چند سال میں سیاست میں نئی روایات متعارف ہوئی ہیں جو نہ صرف ووٹرز کی نئی کلاس کو میدان میں لائیں بلکہ ہمارے سیاسی کلچر کی جہتیں بھی بدل دیں ۔ 2017ء الیکشن کا سال ہونے کی وجہ سے رائے دہندگان کی شرح میں اضافے اور انتخابی مہم میں مزیدجارحانہ انداز دیکھنےمیں آسکتا ہے یہ عوامل خاص طور پر’پاناما‘کےبعدکےمنظر نامے میں آئندہ عام انتخابات پر کس قدر اثر انداز ہوسکتےہیں جوبر سرا قتدا رمسلم لیگ ن کیلئے ایک نان ایشو جبکہ اپوزیشن کیلئےگیم چینجر ہے۔
الزامات اور جوابی الزامات کاسلسلہ ہےجوبسااوقات کردار کشی میں بھی تبدیل ہو جاتاہے تاہم بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی طرف سے ’’ میثاق جمہوریت‘‘ پر دستخط کے بعدجس نے ماضی کو دفن کرکے برداشت کوفروغ دیاکے بعدسےسیاست میں پختگی آئی تاہم سیاست میں نئے رجحا نا ت کاکریڈٹ عمران خان کوجاتاہے۔ان نئے رجحانات میں طرز سیاست ، احتجاج میں تبدیلی، ابلاغ کیلئے معتدل ذرائع کا استعمال جن میں سب سے موثر ،ٹویٹر اور دیگر سوشل میڈیا ذرائع شامل ہیں جس سے تشدد اورانتشار کی سیاست کوبھی زوال آیا۔
طاقتور میڈیا اور خاص طور پر نجی ٹی وی چینلزکی وجہ سے مذہبی جماعتیں جن میں وہ بھی شامل ہیں جو اب بھی جمہوریت کو انتقال اقتدار کا وسیلہ نہیں سمجھتیں اور انتخابات سےالگ رہتی ہیں بھی اپنے نظریات کی ترویج کیلئے ٹی وی اور سوشل میڈیا کا بھر پو ر استعمال کررہی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا تبدیلی کےسرخیل کی حیثیت رکھتا ہےاورکبھی کبھی تویہ حریف اور حلیف کمپنیوں میں بھی تقسیم ہوجا تاہے ،ہم پیچھےہیں تو امریکی میڈیا کی طرح صدارتی امیدواروں میں بحث کے انعقاد میں ہیں۔
میڈیا نہ صرف سیاسی شعور کےفروغ میں مدد دیتا ہے بلکہ ورزاء اور قانون سازوں کواورزیادہ جوابدہ بناتاہے۔ توقع ہے کہ وقت گزرنے کیساتھ میڈیا اور عوام میں مزید پختگی آئے گی۔ اگر کسی سیاستدان نےمیڈیا کو سب سےموثر طور پر استعمال کیا تو وہ شیخ رشید اور ڈاکٹر طاہر القادری رہےہونگے۔
میڈیا کا استعمال اگرچہ سیاست کو ڈرائنگ روم میں لےآیاتاہم اسکی بھر پور رسائی کیوجہ سےیہ زیادہ موثرہے۔اگرالیکشن کمیشن آف پاکستان پیسوں کےعوض تشہیرکےذریعےمیڈیا پرپبلسٹی اوروسائل کے استعمال پر’چیک اینڈ بیلنس‘ لگاتا ہے تو اس سے میڈیا کے مثبت استعمال میں مدد ملے گی۔
ووٹنگ کے نئے رجحانات اور نئے ووٹرز نے2013ء کے انتخابات میں کئی لوگوں کوورطہ حیرت میں ڈال دیا تھااوراس نےپیپلز پارٹی اورمسلم لیگ ن کے دو پارٹی نظام پرکاری ضرب لگائی۔ اس بدلتےطرزنےنہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ مسلم لیگ ن اور کراچی میں ایم کیو ایم کو بھی حیرت زدہ کیا۔پہلی مرتبہ فیملیز پولنگ سٹیشنوں پر گئیں اور ان میں سےہزاروں نے پہلی مرتبہ ووٹ ڈالا ۔ اس سب سے نہ صرف دلچسپی بڑھی بلکہ اسے مرکزی دھارےکی جماعتوں کیلئے بھی چیلنج کے طور پرد یکھا گیا۔
تعجب نہیں کہ کراچی میں ایم کیو ایم جیسی جماعتوں کورزلٹ سےدھچکالگاجب تحریک انصاف جیسی مقا بلتاً نئی جماعت نے ایم کیو ایم کےگڑھ سمجھے جانے وا لے علاقوں سمیت کراچی سے 8لاکھ ووٹ لئے۔ اس طرح اس نے پنجاب میں مسلم لیگ ن اور خیبر پختو نخوا میں اے این پی اور جے یو آئی کو بھی اچھنبے میں ڈالا۔
گزشتہ انتخابات میں ریکارڈتعداد میں ووٹ ڈالے گئے اور الیکشن کمیشن کی حالیہ رپورٹ کےمطابق کثیر تعداد میں نئے ووٹوں کا اندراج بھی ہوا ہے۔ اگر اوور سیز پا کستا نیو ں کو بھی موقع دیا گیا تو کاسٹ شدہ ووٹوں کی شرح ایک نئےریکارڈ تک پہنچ جائیگی۔
سیاسی ترانوں جیسےمعتدل ذرائع کا استعمال جو1986ء میں بینظیربھٹوشہیدکی واپسی کےوقت پیپلز پارٹی نےموثر ترین انداز میں استعمال کئے، پہلی بارنامور گلورکار وں مثلاً سلمان احمد، ابرار الحق، عیسیٰ خیلوی اور دیگرکو نہ صرف عوامی جلسوں میں پرفارم کرتے بلکہ سیاست کرتے دیکھا گیا۔
پہلے پہل عمران کو مذہبی جماعتوں کیساتھ سیکولر اور لبرل پارٹیز کی جانب سے بھی سیاست کو گانوں اور رقص کے ذریعے غیر سنجیدہ بنانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا لیکن بعد میں اس نے دوسروں کو بھی ان میں سے بعض ذرائع اختیار کرنے پر مجبور کردیااور میڈیا کی تو جہ بھی حاصل کرلی۔ اب جبکہ ’دانشوروں‘ کے سوا سیاست مزید’دائیں اوربائیں بازو‘ کی نظریاتی بنیادوں کے گرد نہیں گھومتی تویہ ایشوز کی بنیاد پرہو نے سےہٹ کرذاتی نوعیت کی اورکردار کشی پر مبنی بن گئی ہے۔
احتجاج کے ذرائع بھی تبدیل ہوگئے ہیں اوراچھاہواکہ بسیں اور سرکاری املاک جلانے،پہیہ جام ہڑتال کےبجائےسیاسی جماعتیں اب ’دھرنا‘ دیتی ہیں تاہم عوامی جلسوں میں لوگوں کی شمولیت میں کمی آئی ہے ۔اسی طرح سیاسی کارکنوں کی گرفتا ریوں اور سیاسی لیڈ رو ں کوحراستی مراکزمیں پابندیاقیدتنہائی میں رکھنے میں بھی کمی آئی تاہم پہلی بار انسانی حقوق کے عالمی ادار و ں نےبغیر کسی الزام کے ایم کیو ایم لندن کے بعض رہنما ئو ں کو حراست میں رکھنے کا معاملہ اٹھایا ۔
سن2015ء اور 2016ء میں زیر حراست سیاسی کارکنوں کی ہلاکت کے واقعات بھی پیش آئے لیکن اگر اس کا موازنہ جنرل ضیاء حتیٰ کہ بھٹو کے دور سے بھی کیاجائےتواب کی صورتحا ل بہت بہترہے۔
الیکشن کا سال ہونے کے باعث 2017ء اور 2018ء میں ریلیوں اور جلسوں میں عوام کی کثیرتعداد میں شمولیت کی توقع ہے۔ پیپلز پارٹی کی زیر قیادت اپوزیشن نےسینٹ میں اچھا ’چیک اینڈ بیلنس‘ رکھنے میں تاریخی کردار ادا کیا ۔ چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے سینٹ کو ایک نیارول دیااوراہم ایشوز پر معیاری بحثیں سننے کو ملیں۔
قومی اسمبلی کی کارکردگی پر بھی تنقید ہوتی رہی لیکن باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسکی کارکردگی اتنی بھی بری نہیں جتنی بظاہرلگتی ہےجیسا کہ اس نے جس طرح سے 2014ء کے دھر نے کو ہینڈل کیا ۔مسلم لیگ ن کا خیال ہے کہ اسکا فوکس اپنی ترقیاتی سکیموں ، میٹرو، اورنج ٹرین ، موٹر وے اور لوڈشیڈنگ پر قابو پانے پر ہوگاتاہم تحریک انصاف کی زیر قیادت اپوزیشن کی انتخابی مہم کرپشن کے گرد گھومے گی۔
اس بات سے قطع نظر کہ مسلم لیگ ن ’پامانا‘ کو نان ایشو سمجھتی ہے لیکن سپریم کورٹ کا فیصلہ آئندہ الیکشن کی جہتیں بدل سکتا ہے۔ خواہ عمران خان کی ذات کا اثر ہو یا سابق صدر آصف زرداری کی زیر قیادت پیپلز پارٹی حکومت کی خراب کارکردگی یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ 2013ء کے الیکشن میں پڑھی لکھی مڈل کلاس خاص طور پر خواتین اور نوجوانوں کی کثیر تعداد میں مین سٹریم سیاست میں شرکت دیکھنےمیں آئی۔
پیپلز پارٹی نے اگرچہ طالبان کی دھمکیوں کو پنجاب اور پختونخوا میں اپنی شکست کی وجوہات میں سے ایک قرار دیا تاہم میڈیا نے بھی ان بدلتے رجحانات میں بلاشبہ ایک اہم کردار ادا کیا۔یہ روزافزوں نئےرجحانات نہ صرف سیاست میں نئے رنگ لائے بلکہ جمہوریت کا معتدل روپ بھی پیش کیا۔اس سے سیاسی جماعتوں میں مقابلے کو بھی فرو غ ملا۔یہ دیکھنا دلچسپی سےخالی نہ ہوگاکہ اس سے نتائج پر بھی کوئی فرق پڑتا ہے یا نہیں ۔
راقم جیو، دی نیوز اور جنگ کے سینئر کالم نگار اور تجزیہ کارہیں۔