بلاگ
28 فروری ، 2017

ایدھی: جنہیں خدا کے بندوں سے پیار تھا!

ایدھی: جنہیں خدا کے بندوں سے پیار تھا!

بچپن میں ابو بن ادھمؒ کی کہانی پڑھی تھی اور اس کا اثر آج تک میرے دل و دماغ پر ہے کہ فرشتے نے ابو بن ادھمؒ کا نام خدا کے بندوں سے پیار کرنے والوں کی سنہری کتاب میں لکھ رکھا تھا، ہمارا مذہب حقوق العباد پر سب سے زیادہ زور دیتا ہے، اللہ کریم فرماتے ہیں کہ جس نے میرے بندے کا دل دکھایا اس نے گویا کعبہ ڈھا دیا، دانائے راز حضرت علامہ اسی طرف اشارہ فرما رہے ہیں:

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

اپنے ہیروز کو بھلانے میں ہمیں ید طولیٰ حاصل ہے، آج بھی ہم میں سے اکثر پاناما اور پی ایس ایل کے لاہور میں انعقاد پر اپنی رائے دینے اور دانشوری بگھا رنے میں مصروف ہیں، انہیں شاید یاد نہ ہو پر بقول مومن:

ہمیں یاد ہے ذرا ذرا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو دلوں کے شہنشاہ تھے، انہوں نے انسانیت کو نفسا نفسی کے اس دور میں توپوں، ٹینکوں اور بموں سے نہیں بلکہ محبت، احترام اور رواداری سے فتح کیا اور ان کو لاوارثوں کا وارث کہا گیا، عزت دینے والی ذات بےشک اللہ کی ہے، جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت، آج غیر بھی اس معصوم سے بے ضرر اور عام انسان کی دیوانہ وار خدمت کرنے والے ہیرو کو یاد کر رہے ہیں۔

وہ بظاہر ایک عام سے آدمی تھے، 7ارب انسانوں کے اس بے ہنگم ہجوم میں سے ایک، لیکن وہ اپنی اس فانی زندگی کے دوران لافانی کام کر گئے، ہزاروں لاکھوں افراد کے آرام و سکون کا سامان فراہم کر کے اپنے لیے صدقہ جاریہ بنا گئے، ان کو بابائے انسانیت کہا جاتا ہے، لاکھوں کروڑوں افراد جن میں بزرگ بھی ہیں اور ایسے معصوم بچے بھی جن میں یتیم بھی ہیں اور وہ بھی جن کا اس دنیا میں کوئی سہارا نہ تھا جن کیلئے اللہ کے بعد صرف ایدھی واحد سہارا بنے۔

آج اس خدا کے بندوں سے عشق کرنے والے، عظیم اور درویش نما عام سے آدمی کی 89 ویں سالگرہ منا ئی جارہی ہے، ہو سکتا ہے سنہری کتاب لکھنے والا فرشتہ ایدھی کے صفحے پر ایک کیپشن دے رہا ہو کہ ’’آج ایدھی کی سالگرہ ہے جنہیں خدا کے بندوں سے پیار تھا‘‘ وہ واقعی دلوں کے شہنشاہ اور جذبوں کے دیوتا تھے۔