دنیا
12 مارچ ، 2017

شام:رقہ میں داعش کے زیرتسلط علاقوں سے 300 خاندان فرار

شام:رقہ میں داعش کے زیرتسلط علاقوں سے 300 خاندان فرار

شام میں داعش کے زیرتسلط شہر الرقہ سے 300 خاندان فرار ہوگئے ، سیرین ڈیموکریٹک فورسز کی طرف سے جاری آپریشن کے نتیجے میں شدت پسند گروپ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

غیرملکی میڈیا کے مطابق الرقہ سے 300 خاندان محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کے لیے الرقہ سے نکل چکے ہیں۔شام میں انسانی حقوق کی صورت حال پر نظر رکھنے والے ادار ے سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کی طرف جاری کردہ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ الرقہ سے 300 خاندانوں نے نقل مکانی کی ہے۔

نقل مکانی کرنے والوں میں داعش سے وابستہ مقامی اور غیرملکی جنگجوئوں کے خاندان بھی شامل ہیں۔بیان میں کہا گیا ہے کہ رقہ سے فرار کے بعد یہ افراد مشرقی شام کے شہر دیر الزور اور جنوب مغرب میں حما کی طرف روانہ ہو رہے ہیں۔

خیال رہے امریکا، عرب کمیونٹی اور کردوں کی حمایت یافتہ عسکری گروپ سیرین ڈیموکریٹک فورسز نے گذشتہ برس نومبر میں امریکی مدد کے ساتھ الرقہ میں داعش کے خلاف آپریشن شروع کیا تھا۔

ڈیموکریٹک فورسز الرقہ کے شمال، مغرب اور مشرق کی سمت میں داعش کی سپلائی لائن کاٹنے میں کامیاب ہونے کے ساتھ ساتھ داعش سے کئی اہم علاقے واپس لینے میں بھی کامیاب ہوگئی ہے۔ ڈیموکریٹک فورس کے جنگجو اس وقت الرقہ کے شمال مشرق میں داعش کے مرکز سے صرف 8 کلو میٹر کی دوری پر ہیں۔

رقہ کی تین اطراف سے ناکہ بندی کے باوجود داعشی جنگجو اور اس کے حامی جنوبی سمت میں دریائے فرات کے کناروں کے ساتھ ساتھ فرار ہو رہے ہیں۔انسانی حقوق آبزرویٹری کے مطابق شدت پسندوں کے اہل خانہ کشتیوں کے ذریعے دریائے فرات کے راستے فرار ہو رہے ہیں۔الرقہ کا جنوبی حصہ اس وقت داعشی جنگجوں کا گڑھ ہے۔

امکان ہے کہ موجودہ آپریشن کے دوران داعشی جنگجو شہر کے مشرق میں دیر الزور اور مغرب میں مشرقی حما کی طرف پیش قدمی کریں گے۔اس وقت عراق کی سرحد سے متصل شہر دیر الزور کا بیشتر حصہ داعش کے قبضے میں ہے۔ دیر الزور کا ملٹری ہوائی اڈا دوسرے گروپوں کے پاس ہے۔ اسی طرح مشرقی حما کے بیشتر حصے داعش کے قبضے میں ہیں۔

رقہ میں داعش پر دبا بڑھنے کے بعد جنگجوں کے حما اور دیر الزور کی طرف فرار کے قوی امکانات ہیں۔ داعش نے حالیہ عرصے کے دوران جنگ کا ایک نیا حربہ اپناتے ہوئے شہر کے تمام باشندوں کےلیے افغانی لباس لازمی قرار دیا تھا تاکہ جنگجوں اور عام شہریوں کے درمیان فرق نہ کیا جاسکے۔

مزید خبریں :