بلاگ
30 مارچ ، 2017

خارجہ پالیسی کون چلاتا ہے؟

خارجہ پالیسی کون چلاتا ہے؟

مسئلہ یہ نہیں کہ پاکستان کے انتہائی مقبول عام اور اعزاز یافتہ آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف 39؍ اسلامی ممالک کی اتحادی فوج کی کمان کریں گے۔ یہ دہشت گردی سے نمٹنے میں پاک فوج کی طاقت، صلاحیت اور اہلیت کا اعتراف ہے۔ پاکستان کے اس اتحاد کے حصہ ہونے کے فیصلے کی رازداری نے خود حکومت کو حیران کردیا جس کے نتیجے میں خارجہ پالیسی سازوں کو پشیمانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر یہ مشاورت کے ساتھ حکومت کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کیا جاتا تو پیدا شدہ صورتحال سے با ٓسانی نمٹا جاسکتا تھا۔ دفتر خارجہ کا فوری ردعمل ایک اجنبی کا رہا جسے فیصلے کا معلوم ہی نہ تھا۔

پھر اولین یہ سوال اٹھتا ہےکہ خارجہ پالیسی سے متعلق اتنا بڑا فیصلہ پھر کس نے کیا؟ اس حیران کن اعلان کے بعد رونما واقعات سے صاف ظاہر ہوتاہےکہ پاکستان کو اس فیصلے پر مجبور کیا گیا۔ چونکہ یہ پیش رفت یا اقدام سعودی، یمن تنازع کے بعد سامنے آئی تھی لہٰذا حکومت نے ابتدا میں اپنے تحفظات کااظہاربھی کیا۔ پاکستان اس اتحادی فوج کی قیادت کرےگا اور سربراہی کے لئے سابق آرمی چیف کو چن لیا گیاہے۔

اطلاعات کے مطابق حکومت نے خط کا رسمی طور پر جواب دے دیا ہےاور این او سی کا معاملہ محض خانہ پری رہ گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف انتہائی مشکل جنگ میں جنرل (ر) راحیل شریف بڑی اچھی ساکھ رکھتے ہیں انہیں دہشت گردوں سے دو دو ہاتھ کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔ اب کچھ مختلف ماحول میں اتحادی فوج کی سربراہی ان کے لئے ایک چیلنج ہوگا۔ اپنی حیثیت میں ان کے لئے یہ مثبت ہوگا کہ وہ اسلامی ممالک کے درمیان تنازعات میں ثالث کا کردار ادا کریں۔

یہ مذکورہ اتحاد 39؍ ممالک تک کیوں محدود ہے؟ دیگر ممالک سے بھی رابطہ یا مدعو کیا گیا تھا۔ انہوں نے انکار کردیا، معذرت کرلی یا اپنے فیصلے محفوظ رکھے۔ اس اتحاد کا اصل مقصد کیا ہے؟ یہ محض دہشت گردی کے خلاف جنگ کا معاملہ ہے یا پھر یہ اتحاد نیٹو کا متبادل ہوگا؟ یہ درست ہے کہ پاکستان اسلامی ممالک کے درمیان آپس کی کشیدگی کم کرنے میں اپنا کردارا دا کرسکتا ہے۔ لیکن عرب دنیا کے درمیان تنازعات کے عالمی مضمرات اور پیچیدگیاں ہیں۔ اسلامی ممالک کےبارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے تحت ممکنہ امریکی پالیسی کے بارے میں ہم ابھی تک بے یقینی میں مبتلا ہیں۔ لیکن خصوصا ایران کے بارے میں یہ سخت گیر ہوگی۔

سات اسلامی ممالک کے باشندوں پر امریکی سفری پابندیاں آئندہ چار برسوں کے دوران اٹھائے جانے والےا قدامات کی محض ابتدا ہوسکتی ہے۔ اب یہ اتحاد دہشت گردی کے بین الاقوامی نیٹ ورکس جیسے القاعدہ اور داعش سے لڑنے کے لئے بنایا جارہا ہے یا کوئی طویل حکمت عملی ہے، ابھی کچھ معلوم نہیں۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ پاکستان کسی احمقانہ مہم جوئی کا حصہ نہیں ہوگا۔ لہٰذا زیادہ صفائی اور وضاحت کی ضرورت ہے۔

پارلیمنٹ میں تمام تفصیلات سامنے لائی جانی چاہئے یا کم از کم دفتر خارجہ کی سطح پر آگاہ کیا جائے۔ ملک میں کوئی وز یر خارجہ نہیں۔ یہ قلم دان وزیراعظم کے پاس ہی ہے۔ وزیر دفاع کے بجائے مشیر خارجہ ہی کو چاہئے کہ وہ پارلیمنٹ اور قوم کو اعتماد میں لیں۔ اب تحریک انصاف نے گزشتہ قرارداد کی خلاف ورزی پراس ایشو پر پارلیمنٹ کو صرف نظرکرنے کا معاملہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

حکومت اور اپوزیشن دونوں کو چاہئے کہ وہ اس پر بحث میں محتاط رہیں۔ اس کے دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اس معاملے کو اس قدر راز رکھنے کی ضرورت نہ تھی اس سے الجھائو پیدا ہوا اور قیاس آرائیوں نے جنم لیا۔ پاکستان یقیناً سعودی عرب کو انکار نہیں کرسکتا چین کی طرح اس نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت اور مدد کی۔ جب پاکستان نے سعودی عرب، یمن تنازع میں فریق نہ بننے کا فیصلہ کیا تو سعودی حلقوںمیں اسےا چھا نہیں لیا گیا۔ اپنے فیصلے سے سعودی حکمرانوں کو مطمئن کرنے کے لئے وزیراعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کو ریاض کے متواتر دورے کرنے پڑے تھے۔ بھٹو دور کے سوا پاکستان کی کبھی آزادانہ خارجہ پالیسی نہیں رہی۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم مضبوط اسلامی بلاک کا تصور لائے تھے۔ عربوں کو تیل کو بطور ہتھیار اختیار کرنے کی ترغیب دی۔

سابق سعودی عرب کی جانب سے جنرل راحیل شریف کا انتخاب دہشت گردی کے خلاف جنگ ’’ضرب عضب‘‘ میں ان کے قائدانہ کردار کے حوالے سے کیا گیا وہ مسلم ممالک کی اعلیٰ فوجی قیادت میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ خصوصاً سعودی، یمن تنازع میں جنرل راحیل شریف نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان اختلافات دور کرانے میں کلیدی کردارادا کیا۔ لہٰذا اتحادی فوج کا کردار واضح اور طے شدہ ہونا چا ہئے۔

اس وقت کم از کم پاکستان کے عوام اس کردار سے لاعلم ہیں۔ پارلیمنٹ کو اندھیرےمیں رکھا گیا اور حتیٰ کہ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کو بھی شاید نہیں بتایا گیا ہو۔ پاکستان کے پاس دنیا کی منظم ترین فوج ہے اس پیش رفت سے واقف کچھ ریٹائرڈ جنرلوں کے مطابق اتحادی فوج میں پاکستان کا  مرکزی کردار رکن ممالک کی نفری کو صلاحیت سازی میں مدد دینا اور تربیت فراہم اور انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی طے کرنا ہے۔

پاکستان کو معاملات اس قدر راز میں نہیں رکھنے چاہئیں۔ جنرل راحیل شریف کی تقرری کے معاملے میں حکومت اور فوج ایک صفحے پر ہیں اور انہوں نے خدشات اور تحفظات دور کرکے ایران کو بھی اعتماد میں لیا ہو تو جنرل راحیل اور اتحادی فوج کے حق میں تازہ قرارداد پارلیمنٹ میں لاکر منظور کرائی جانی چاہئے۔ تاہم بحیثیت ریاست پاکستان کے لئے یہ بات اہم ہے کہ اس کی اپنی خارجہ پالیسی ہونی چاہئے جو کسی نادیدہ زور زبردستی سے پاک ہو۔