08 اپریل ، 2017
’الفتیں ۔۔۔شہرتیں۔۔ چاہتیں۔۔۔سب کچھ اس دنیا میں رہتا نہیں۔آج جہاں میں ہوں کل کوئی اور تھا،یہ بھی ایک دور ہے وہ بھی ایک دور تھا۔‘
یہ وہ الفاظ ہیں جو ہر محفل، ہر تقریب میں ایک تنہا شخص بڑے دکھ اور کرب سے دھراتا تھا جس کے لئے لفظ سپر اسٹار تخلیق ہوا جس کی وہاں پوجاکی جاتی تھی جس نے اتنا عروج دیکھا۔ اس کے ناقدین بھی اس کی عظمت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں لیکن پھر ایک خوفناک زوال شدید تنہائی اور بے بسی اس عظیم سپر اسٹار کا مقدر بنی ۔
یہ تاریخی الفاظ راجیش کھنہ کے ہیں جنہیں وہ اپنے آخری چند برسوں میں ہر محفل اور تقریب میں دھراتے تھے۔زندگی کا سچ بھی یہی ہے۔ یہی وہ سبق ہے جو ایک ایسے انسان نے سیکھا جسے بھارتیوں نے’بھگوان‘ بنا رکھا تھا۔
اپریل 2012 کی وہ شام راجیش کھنہ کا کوئی مداح نہیں بھول سکتا جس میں وہ ایوارڈز کی ایک تقریب میں انتہائی کمزور اور بیمار نظر آئے۔اس تقریب میں ونود کھنہ بھی شریک تھے اور راجیش کھنہ کےابتدائی جملے بول رہے تھے ۔
جب میں نے ونود کھنہ کی اسپتال میں کھڑے انتہائی کمزوری کی حالت والی تصویر دیکھی تو مجھے پانچ برس پہلے والی وہ تقریب یاد آ گئی جس میں بالی وڈ کے پہلے سپرا سٹار کو تقریبا ًاسی حالت میں دیکھا تھا۔
اطلاعات کے مطابق ونود کھنہ کو بلڈ کینسر ہے اور وہ اس موذی بیماری کا بڑی بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ونود کھنہ کاشمار بھی ان بھارتی اداکاروں میں ہوتا ہے جو پشاور میں پیدا ہوئے ۔
سن 1946 میں پیدا ہونے والے ونود کھنہ کا خاندان تقسیم کے بعد ممبئی ہجرت کر گیا۔1968 میں ونود نے اپنے فلمی سفر کا آغاز سنیل دت کی فلم "من کا میت" سے بطور ولن کیا اور 2013 تک اپنے مداحوں کو141 فلموں کا تحفہ دیا۔
انہوں نے اپنے وقت کے عظیم اداکاروں کے ساتھ کو اسٹار کے طور پر بھی کام کیا۔ ان میں راجیش کھنہ،امیتابھ بچن،دھرمندر اور شمی کپور شامل ہیں۔
ان کی مشہور فلموں میں آن ملو سجنا،قربانی،جرم،امر اکبر انتھونی،ہم تم اور وہ ‘دیاوان ‘اور دیگر شامل ہیں.
سن1981 میں اپنے گرو کی ہدایت پر چند برس فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیارکی۔ فلموں کے علاوہ سیاست میں بھی قدم جمائے اور گورداس پور سے ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ان کی حالیہ تصویر کو دیکھ کر برصغیر پاکستان و ہند میں ان کے مداحوں کو سخت تشویش لاحق ہے اور ان کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہے۔