20 اپریل ، 2017
سب کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہیں، سب کو آج دوپہر دوبجے سے سے بڑی’’ بریکنگ نیوز‘‘ کا انتظار ہے، نتیجہ جو بھی نکلے، یہ سیاسی مستقبل کا راستہ متعین کرسکتا ہے۔ پانچ رکنی بنچ کے فاضل سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ فیصلے کا اعلان کرینگے جو 23 فروری کو محفوظ کیا گیا تھا، جہاں متعلقہ پارٹیوں کے سیکڑوں کارکن اور حامی عدالت کی عمارت کے باہر فیصلے کے منتظر ہونگے وہاں لاکھوں ٹی وی سکرین پر دیکھ رہے ہونگے، انہیں شاید 2013ء کے عام انتخابات کے بعد اس طرح کی بڑی ’’بریکنگ نیوز‘‘ کا کبھی انتظار نہیں ہوا ہوگا۔
بنچ کے دو فاضل ججز کے ان ریمارکس کے علاوہ کہ ’’ فیصلہ تاریخی ہوگا اور آنے والی نسل یاد کرے گی‘‘ کوئی نہیں جانتا کہ بنچ کا فیصلہ کیا ہوگا تاہم اس طرح کے کمنٹس نے پہلے ہی بہت سی توقعات اور امیدیں پیدا کردی ہیں۔ پانامہ کے بعد منظر نامے میں آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں ہم نئے سیاسی اتحاد دیکھ سکتے ہیں۔ چھوٹی پارٹیاں بڑی پارٹیوں کی طرف دیکھ سکتی ہیں جبکہ آنے والے مہینوں میں نئے اتحاد بھی معرض وجود میں آسکتے ہیں۔
آئندہ چند گھنٹوں میں ہم یہ جان سکیں گے کہ نئی تاریخ پیدا ہوگی یا تاریخ دہرائی جائے گی۔ اس کیس سے عدالت کے اندر اور باہر جس قسم کے جذبات کو فروغ ملا ہے اس نے لوگوں کو اپنے طرف متوجہ کیا ہے، آج دوبجے دوپہر یقیناً زندگی منجمد ہوسکتی ہے۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں میڈیا نے بھی اپنی توجہ پاناما کی طرف منتقل کردی ہے۔
تمام اہم سیاسی پارٹیوں پاکستان مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی اور پی پی پی نے فیصلے کے بعد اپنی حکمت عملی کیلئے مشاورتی اجلاس طلب کرلئے ہیں، چونکہ سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر لوگوں کا بڑا ہجوم متوقع ہے اس لئے سپریم کورٹ کے اردگرد سکیورٹی پہلے ہی سخت کردی گئی ہے، صرف ان لوگوں کو کورٹ میں جانے کی اجازت ہوگی جنہیں پاسز جاری کئے جاچکے ہیں۔
گزشتہ سال اپریل تک لوگ ’’پانامہ‘‘ کا نام تک نہیں جانتے تھے۔ لیکن آج یہ ایک ’’برانڈ‘‘ بن گیاہے، شکریہ ’’انٹرنیشنل‘‘ انویسٹگیٹیو جرنلسٹس‘‘ کی ٹیم کا جس میں’’ جیو اور جنگ‘‘ کا ہمارا ایک ساتھی سینئر صحافی عمر چیمہ بھی شامل ہے۔ پانامہ سے پوری دنیا میں طوفان آیا اور اس سے پاکستان کا سیاسی نظام بھی متاثر ہوا۔
آف شور اکائونٹس میں جن لوگوں کے نام شامل ہیں، اس فہرست میں وزیراعظم نوازشریف کے بیٹوں اور بیٹی کا نام بھی شامل تھا، اس سے ایک چھوٹا سا ’’سونامی‘‘ آیا اور اپوزیشن جو حوصلہ ہار چکی تھی اس کا حوصلہ بڑھا خاص کر عمران خان جیسے لوگوں کیلئے جو 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی سے متعلق جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد بحالی کیلئے جدوجہد کررہے تھے۔
عمران جو ایک اہم اپوزیشن لیڈر اور سابق کرکٹر ہیں نے اس صورتحال کو اپنے حق میں خوب استعمال کیا اور جذبات انگیزی کے ذریعے شریف خاندان اور مسلم لیگ (ن) کو بیک فٹ پر لے گیا، یہ اچھی بات ہے کہ تمام اہم سیاسی لیڈروں نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ جو بھی فیصلہ آئے قبول کرینگے تاہم فیصلے کے اعلان کے بعد ردعمل مختلف آسکتا ہے۔
فیصلے سے بعض خوش اور بعض مایوس، مثال کے طور پر پاکستان پیپلزپارٹی کے لیڈروں نے پہلے ہی یہ جذباتی ماحول پیدا کردیا ہے کہ اگر فیصلہ نوازشریف کے حق میں آتا ہے تو کہا جائیگا کہ عدالتیں ’’شریف ‘‘ کیخلاف کبھی فیصلے نہیں دیتیں اور اگر فیصلہ وزیراعظم کے خلاف جائے تو وہ اسے تاریخی فیصلہ کہیں گے۔
یہ اتفاقیہ بات ہوگی کہ فیصلہ اسی عدالتی روم میں دیا جائے جہاں چند برس قبل سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے کیس میں کارروائی کے بعد نااہل قرار دیا گیا تھا۔