بلاگ
08 مئی ، 2017

ملکی نظام اور حالات

ملکی نظام اور حالات

پاکستان کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو آنکھوں کے سامنے ایک فلم چلنا شروع ہوجاتی ہے، ملک کے نظام میں اتنا اتار چڑھاؤ رہا ہے کہ عوام تنگ آ گئے ہیں، عوام سمجھتے ہیں کہ نظام میں اتنی اکھاڑ پچھاڑ کی وجہ سے ہی معاشی حالات خراب ہوئے اور ملک دشمن طاقتوں کو موقع مل گیا جو دہشت گردی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

افواج پاکستان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن پوری قوت کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں اور کامیابیاں بھی حاصل ہو رہی ہیں لیکن ہمارے سیاستدان ہیں کہ ملکی حالات کی درستگی کے لیے متفقہ حکمت عملی بنانے اور اکٹھے بیٹھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے۔

ایک طرف حزب اختلاف کی جماعتیں ہیں کہ ہر بات کو ایک مسئلہ بنا دیتے ہیں تو دوسری جانب حکومت ہے کہ لوگوں کو حقیقت بتانے کو تیار نہیں،کسی بھی مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے تحقیقاتی ٹیم تو بنا دی جاتی ہے لیکن اس کی رپورٹ کبھی شائع نہیں کی جاتی، ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری حکومت بن جاتی ہے لیکن کوئی بھی سچائی سے عوام کو آگاہ نہیں کرتا۔

اب لوڈ شیڈنگ جیسے معمولی لیکن عوام کی جان عذاب کرنے والے مسئلے ہی کو لے لیں،10سال گزر گئے عوام کو سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں، موجودہ حکومت بھی 4سال سے مسئلے کی شدت میں کمی اور اس کے جلد خاتمے کا لولی پاپ دیے جارہی ہے لیکن لوڈ شیڈنگ جوں کی توں ہے، بہرحال ایسی بہت سی مثالیں ہیں جنہیں اگر شمار کرنا شروع کریں تو کئی دن گزر جائیں لیکن وہ ختم نہ ہوں۔

نظام صحیح ہوتا تو ڈان لیکس جیسا معاملہ وقوع پزیر نہ ہوتا، نہ کوئی حقیقت سے انکاری ہوتا اور نہ اتنا فسانہ بنتا، ڈان لیکس سامنے آئی تو پہلے کہا گیا کہ یہ جھوٹی اور بے بنیاد خبر ہے، خبر اگر گھڑی گئی تھی تو اس شخص کو سزا دی جانی چائیے تھی جس نے یہ خبر گھڑی اور اس کو بھی جس نے اسے آگے پہنچایا، پھر حکومتی رکن یا ارکان، جو بھی اس حرکت میں ملوث پائے گئے تھے انہیں صرف عہدے سے نہیں ہٹانا چاہیے تھا بلکہ ایسی سزا تجویز کی جاتی کہ آئندہ کوئی بھی ایسی حرکت کرنے کی ہمت نہ کرتا۔

پھر یہ بھی کہا گیا کہ خبر رکوائی کیوں نہیں گئی، اس بات سے قطع نظر کہ یہ جملہ بجائے خود ظاہر کر رہا ہے کہ کچھ تو تھا جس کی بنیاد پر یہ خبر شائع کی گئی، میں نے یہ پہلی بار سنا ہے کہ حکومتی ذمہ داران، وزراء اور افسران کا کام خبریں رکوانا بھی ہے یا یوں کہوں کہ وہ خبریں رکواتے رہے ہیں تبھی یہ کہا گیا، اگر ایسا ہے تو پھر آزادی صحافت کا کیا ہو گا؟ اگر قومی سلامتی کا مسئلہ تھا تو صحافی اور اس کے ادارے کو معاملے کی سنگینی کے پیش نظر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، یہاں میں یہ ضرور کہوں گا کہ اگر معاملہ قومی سلامتی کا ہو تو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی اپنی ایڈیٹوریل پالیسی کے تحت خبر کو روک لیا جاتا ہے اور کسی کو خبر رکوانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

خبر چھاپنے کے محرکات کا پتا چلانے کے لیے حکومت اور فوج کی باہمی رضامندی اور اشتراک سے ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی گئی لیکن مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ پر عمل درآمد کے لیے وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے احکامات اور اس پر ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کا ایک ٹویٹ کے ذریعے ردعمل سامنے آنے سے نئی صورت حال پیدا ہوگئی۔

ٹوئٹ میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی کی سفارشات کے مطابق نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا جسے رد کیا جاتا ہے، میری رائے میں اگر جے آئی ٹی رپورٹ میں کی گئی سفارشات کا نوٹیفکیشن اصل روح کے مطابق جاری کر دیا گیا ہوتا تو معاملہ اس نہج تک نہیں پہنچتا اور افہام و تفہیم سے حل ہو جاتا۔

وزیراعظم ہاؤس سے بتایا گیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی اور دیگر معاملات کے ساتھ ڈان لیکس پر بھی بات ہوئی، ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے آرمی چیف سے ڈی جی آئی ایس پی آر کے ٹویٹ پر شکایت کی تاہم آرمی چیف نے بھی کچھ تحفظات کا اظہار کیا۔

بہتر تو یہ تھا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی مکمل رپورٹ شائع کر دی جاتی تو اس طرح کے ابہام پیدا نہیں ہوتے اور پاکستان کے ان دو اہم ترین اداروں کے درمیان چپقلش کی خبریں زبان زد عام نہ ہوتیں، لیکن اگر پوری رپورٹ کا منظر عام پر لانا ممکن نہیں ہے تو کم از کم پیرا 18 کے مندرجات سے ہی آگاہ کر دیا جاتا اور ان کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جاتا تو حالات اتنے نہ بگڑتے۔

وزیراعظم سے آرمی چیف کی ملاقات کے بعد وزیرمملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ایک دو روز میں نوٹیفکیشن جاری کردیا جائے گااور وزیراعظم سے آرمی چیف کی ملاقات کی کہانی اس نوٹیفکیشن میں نظر آئے گی۔

ڈان لیکس کے معاملے پر اداروں کے درمیان جو خلش پیدہ ہوئی وہ تو سنبھل ہی جائے گی لیکن باخبر حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کی پنجاب اور مرکزی قیادت کے درمیان تناؤ واضح ہوتا جا رہا ہے۔

بلدیاتی انتخابات میں 35 میں سے 31 اضلاع میں مسلم لیگ ن کے ممبران قومی اسمبلی کے قریبی رشتہ داروں یا ان کے حمایت یافتہ افراد کو چیئرمین شپ کا ٹکٹ دیا گیا، یہ بھی بتایا گیا کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف کے قریبی ساتھی خواجہ حسان کو لاہور کے میئر کا ٹکٹ دینے کے بجائے اسپیکر ایاز صادق کے قریبی ریٹائرڈ کرنل مبشر جاوید کو لاہور کا میئر بنادیا گیا ہے، کہا جارہا ہے کہ پچھلے دنوں اوکاڑہ اور لیہ میں نواز شریف کے جلسوں میں شہباز شریف کا نہ آنا بھی معنی خیز ہے، ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو ان جلسوں میں شرکت کی دعوت ہی نہیں دی گئی۔

اب آپ اسے اقتدار کہیں یا سیاست،بات ایک ہی ہے، اقتدار کی پہلی سیڑھی سیاست ہی ہوتی ہے اور اقتدار کی ان سیڑھیوں میں ایک سیڑھی حکمت عملی یا سازش کی بھی ہوتی ہے، جو شخص یا خاندان اقتدار حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اس سیڑھی کو حکمت عملی کہتا ہے اور جس کے خلاف جائے وہ اس کو سازش کہتا ہے، اس بات کا ثبوت یہ بھی ہے کہ کچھ سیاستدان جو مشرف حکومت میں نظر آتے تھے اب نواز حکومت میں شامل ہیں بلکہ ایک دو تو آنکھ کا بال سمجھے جاتے ہیں۔

بہرحال ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو اقتدار کی جنگ میں کوئی کسی کا مخلص دکھائی نہیں دے گا لیکن میری تمام اداروں کے سربراہان سے صرف ایک التجا ہے کہ ملک کے نظام اور حالات کو عوام دوست ہونا چاہیے نہ کہ اشرافیہ کا تابع۔