24 مئی ، 2017
کوئی نظام ہو، کوئی معاشرہ ہو، اگر اس کی تعلیمی حکمت عملی یا اقتصادی حکمت عملی ہو سکتی ہے تو ابلاغی حکمت عملی کا ہونا اور بھی ضروری ہے۔
اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ ہماری کوئی قومی تعلیمی یا اقتصادی حکمت عملی نہیں ہونی چاہئے تو پھر واقعی ابلاغی حکمت عملی کی بھی ضرورت نہیں۔
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کچھ ذرائع ابلاغ حکومت کی تحویل میں ہیں، کچھ نجی ملکیت میں ہیں اور آزاد ہیں تو ان کے لیے یکساں حکمت عملی کیسے بن سکتی ہے؟
اس کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ بیشتر ممالک میں سرکاری اور نجی شعبوں میں تقسیم ہے لیکن ہر ملک کی ایک قومی اقتصادی حکمت عملی ہے۔
تعلیمی اداروں کا بھی یہی ہے، کچھ نجی شعبے میں ہیں کچھ سرکاری شعبے میں ہیں لیکن دونوں پر قومی تعلیمی حکمت عملی کا اطلاق ہوتا ہے۔
بعض مغربی ممالک میں تمام تر ذرائع ابلاغ نجی شعبہ میں ہیں، اس کے باوجود سب قومی ابلاغی حکمت عملی کے تحت کام کرتے ہیں اور یہ حکمت عملی وہ خود ہی وضع کرتے ہیں، اس حکمت عملی کی ضرورت معاشرے کی اجتماعی سلامتی اور بقاء کی ضرورت کے ساتھ منسلک ہے۔
اگر یہ صحیح ہے کہ قوم کا کوئی نصب العین ہونا چاہئے یا معاشرے کے سامنے کچھ مشترک مقاصد ہونے چاہئیں تو پھر اس نصب العین یا ان مقاصد کے حصول کے لیے زندگی کے ہر شعبے میں کچھ رہنما اصول بنانے پڑیں گے اور انفرادی و اجتماعی سرگرمیاں اپنی بوقلمونی اور رنگارنگی کے باوجود ان اصولوں کے دائرے میں رہیں گی۔
ابلاغ اور اظہار کے حوالے سے اس کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ ایک معاشرے میں سیاسی، معاشرتی، تعلیمی، اقتصادی اور دوسرے مسائل کے حل کے بارے میں مختلف آراء ہو سکتی ہیں لیکن معاشرے کی سلامتی اور بقاء کی ضرورت غیر متنازع ہے لہٰذا ہر معاملہ میں اس کی سلامتی اور بقاء کا خیال رکھنا حکمت عملی قرار پائے گا۔
اچھی بات یا اچھی مثال کہیں سے بھی ملے، اسے لینے میں تامل نہیں ہونا چاہئے، صحافت اور ابلاغ عامہ کے ایک استاد کی حیثیت سے میری رائے میں پاکستان کی قومی ابلاغی حکمت عملی میں مندرجہ ذیل نکات کو لازمی شامل کرنا چاہیے۔
کسی بھی صورت میں کوئی ایسی بات شائع یا کسی اور صورت میں پیش نہیں کی جائے گی جو ملک کی سالمیت، خودمختاری، استحکام اور دفاعی تقاضوں کے منافی ہو یا جس سے مختلف طبقات میں منافرت یا تعصب پیدا ہو، کسی قسم کا فساد ہو جانے کی صورت میں اس میں ملوث افراد کے ناموں یا مذاہب یا قومیتوں کا ذکر نہیں کیا جائے گا۔
ریاست اور عوام کی ان سرگرمیوں کو نمایاں کیا جائے گا جن کا مقصد عوام میں اتحاد پیدا کرنا اور ملک کی سالمیت کو مستحکم کرنا ہو۔
قومی یکجہتی خلاء میں پروان نہیں چڑھتی، ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ یکجہتی کو نقصان پہنچانے والے عوامل کا سراغ لگا کر ان کا تدارک کیا جائے،یکجہتی کو فروغ دینے والے عوامل تلاش کرکے ان کو نمایاں کیا جائے۔
تحریک پاکستان کے دوران قوم کے سامنے ایک نصب العین تھا، قیام پاکستان کے بعد اسلام یا نظریہ پاکستان کے سوا کوئی نصب العین یا اجتماعی مقصد قوم کے سامنے نہ رکھا گیا۔
اسلام کو مجرد انداز میں پیش کیا گیا، چنانچہ یکجہتی کے منافی قوتیں منظم اور متحرک ہوتی گئیں، قومی یکجہتی کی ضرورت سے آگاہ قوموں کی قیادت اور ذرائع ابلاغ ایک نہ ایک اجتماعی نصب العین قوم یا معاشرے کے سامنے رکھتے ہیں، ہمارے ہاں سیاسی و فکری قیادت اور ذرائع ابلاغ میں سے کوئی بھی قوم کے سامنے اجتماعی نصب العین رکھنے کا اہتمام نہیں کر سکتا۔
پاکستان کے مختلف علاقائی ادب و تہذیب کے روحانی و اخلاقی مزاج کی تفہیم و فروغ کی تمام ذمہ داری صرف میڈیا پر عائد کر دینا بھی قرین انصاف نہیں ہے۔
کسی بھی ذریعہ ابلاغ کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ ہر علاقے میں ایسے افراد مقرر کرنے کے اخراجات برداشت کرے جن میں ادبی، علمی اور ثقافتی سطح پر تحقیق کرنے کی صلاحیت ہو۔
اس اہم کام میں حکومت کے دست تعاون کی ضرورت ہے بشرطیکہ حکومت تعاون کی آڑ لے کر میڈیا کی آزادی میں مزید مداخلت کرنے کے راستے پیدا نہ کر لے۔
قوم میں یکجہتی پیدا کرنے کے لیے تین طریقے اختیار کئے جا سکتے ہیں: اوّل انتظامی یکجہتی، دوم صنعتی اور تجارتی یکجہتی، سوم ثقافتی یکجہتی کے مسئلے کی یوں تشریح کی جا سکتی ہے۔
ثقافتی یکجہتی کے معنی ثقافتی یک رنگی نہیں ہیں، مختلف ثقافتیں ایک کے اندر بہ حسن و خوبی سما سکتی ہیں، اس سلسلے میں عوامی جمہوریہ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں قومی ثقافتوں کی نمائش گاہیں موجود ہیں اور قوم کا ہر فرد اپنے عظیم ملک میں نشوونما پانے والی تمام ثقافتوں سے نہ صرف واقف ہے اور ان کے فروغ میں دلچسپی لیتا ہے بلکہ ان سے محبت بھی کرتا ہے اور اس طرح تمام علاقائی ثقافتیں عوامی چین کا قومی سرمایہ ہیں۔
اگر پاکستان میں بھی ایک ایسا ادارہ قائم کر دیا جائے اور اس کی شاخیں ملک کے طول و عرض میں کھول دی جائیں تو نہ صرف مختلف علاقوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے اور ایک دوسرے کے قریب آنے میں مدد ملے گی بلکہ باہر سے آنے والے سیاحوں کو بھی ان ثقافتوں کو ایک ہی قومیت کے رنگارنگ مظاہر کے طور پر دکھایااور سمجھایا جا سکے گا،اس کے علاوہ نوجوان جو اپنے ہی ملک سے ناواقف ہیں‘ ملک کے ساتھ وابستگی محسوس کرنے لگیں گے۔