بلاگ
17 جون ، 2017

ہمارا کوئی تقدس نہیں

ہمارا کوئی تقدس نہیں

اسلام میں دولت ، شہرت ، طاقت یا اقتدارکی بنیاد پر کسی کو کوئی فوقیت حاصل نہیں اور نا ہی کوئی انصاف کے دائرے سے باہر۔ اس اصول کی بنیاد پر کسی بھی مہذب معاشرے میں کوئی قانون سے بالاتر نہیں خواہ وہ اس ملک کا سربراہ ہی کیوں نا ہو۔ تاریخ اسلام ایسی مثالوں بھری پڑی ہے۔ خلفائے راشدین نے ہمیشہ اپنے آپ کو رعایا کا خدمت گار سمجھا اوراس معاملے میں کسی بھی کوتائی کو برداشت نہیں کیا یہاں تک کہ انہوں نے خود کو بھی قانون کا جوابدہ سمجھا نا کہ اس کی گرفت سے باہر۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور یہ سب اس دنیا کے کئی ممالک میں ہوتا تو ہے مگروہ تمام غیر مسلم ممالک ہیں جوان اصولوں پرعمل پیرا ہیں۔ جہاں تک مسلم ممالک کو تعلق ہے تو ان میں ایسی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔

جن مسلم ممالک میں بادشاہت قائم ہے وہاں قانون حکم بادشاہ ہوتا ہے اور جہاں جموریت ہے وہاں امیر اور طاقتور کے لئے قانون کی تشریح اور نفاذ ان کے مفاد میں اورغریب کے لئے سخت ذہنی اور جسمانی سزا ۔ کہا جاتا ہے کہ ظلم اور بربریت کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے مگر ناانصافی کی نہیں کیوں کہ جس معاشرے میں انصاف نا ہو وہ تباہ ہوجاتا ہے۔

اس تہمید کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ مسلم لیگ ن جاپان کے صدر نور اعوان نے قومی اسمبلی میں داخل ہوتے ہوئے شیخ رشید کو روک کر اپنے 22 لاکھ روپے واپس مانگے تو شیخ رشید برہم ہو گئے اور نور اعوان کے خلاف پرچہ کرانے تھانے پہنچ گئے۔ یہ تو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ انہیں اسمبلی کے احاطے میں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا مگر نور اعوان کا کہنا ہے کہ وہ برسوں سے شیخ رشید کے خلاف درج ان کی ایف آئی آر پر کارروائی نا ہونے کے بعد وہ اس انتہائی اقدام پر مجبور ہوئے ۔

نور اعوان کے شیخ رشید سے اس طرح رقم کی واپسی کا مطالبہ کرنے پر ارکان اسمبلی بھی ان کے خلاف ہو گئے ۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ارکان اسمبلی شیخ رشید کی حمایت میں بولنے لگے اور ان کو اپنے تقدس پامال ہوتا دکھائی دینے لگا۔ حیرت انگیز طور پر تمان محترم اراکین اسمبلی سیاسی اختلافات بھلا کر یک زبان ہوگئے۔ مسلم لیگ ن کے عابد شیر علی نے کہا کہ ارکان کا تقدس مجروح ہوا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ بھی تقدس مجروح ہونے کی صدا بلند کرنے لگے۔ اور تو اور کرپشن کے خلاف تحریک چلانے کا دعوی کرنے والے عمران خان نے بھی نور اعوان کے عمل کی مذمت کرڈالی لیکن شیخ صاحب کو کچھ نہیں کہا۔ یہی نہیں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے بھی کسی تحقیق کے بغیر 22 لاکھ روپے کا مطالبہ کرنے والےشخص کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا ۔ نتیجتا" نور اعوان کوسلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا گیا۔

سوال یہ ہے کہ کیاعوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والے عوام سے ذیادہ مقدس ہو جاتے ہیں؟ اور بے چارے عوام کا کوئی احترام نہیں ؟

واقعہ یہ ہے کہ شیخ رشید پر ایک شہری کے 22 لاکھ روپے ہڑپ کرنے کا الزام ہے۔ اس کے علاوہ ایک وزیر کے خلاف "حیثیت سے زیادہ" اثاثے بنانے کا کیس عدالت میں چل رہا ہے۔ اگر لوگوں کو یاد ہو تو سیاستدانوں میں کسی کو رینٹل راجا کہا گیا تو کسی کو مسٹر 20 پرسنٹ۔ کئی سیاست دانوں اور کاروباری شخصیات کے نام پاناما کیس میں سامنے آئے ۔ کچھ ارکان اسمبلی پر کرپشن کا الزام لگا تو وہ ملک سے باہر چلے گئے اورجب انہیں یقین ہو گیا کہ انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا تو واپس آئے۔

یہ الزامات چند ہزار یا چند لاکھ روپے کے نہیں بلکہ اربوں روپے کے خرد برد کے ہیں۔ لیکن ایک عام رائے یہ ہے کہ طاقتور اشرافیہ کے خلاف کچھ نہیں ہوسکتا۔ یہ ملک کی دولت لوٹتے رہیں گے، لوگوں کا مال ہڑپ کرتے رہیں اور دھڑلے سے عوام پر راج بھی کرتے رہیں گے۔ قصور وار ہے تو صرف عوام ۔۔ جن کا کوئی تقدس کوئی احترام نہیں ان کا کوئی والی وارث نہیں۔ انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات مہیا نہیں اور انہیں شکایت کرنے کی اجازت بحی نہیں۔ طاقتور اشرافیہ ان کے حقوق پامال کرتے ہیں، ان کی اراضی یا دیگر قیمتی اشیاء پر قبضہ کرلیں لیکن عام لوگوں کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں۔

نور اعوان کے پاس قومی اسملبی کے احاطہ میں جانے کا اجازت نامہ تھا اور اس نے شیخ رشید کو کوئی دھکمی دی نہ ان پر ہاتھ اٹھایا صرف بازو پکڑ کر اپنے 22 لاکھ روپے واپس مانگے تھے جس پر اس کے خلاف فوجداری مقدمہ قائم کر دیا گیا۔ میں وزیر داخلہ چودھری نثار کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہاتھ پکڑ کر منہ سے بولنے پر فوجداری کا مقدمہ نہیں بنایا جاسکتا۔

آخر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر واقعی ہمارے منتخب نمائندے کرپشن اور بدعنوانی کو برا سمجھتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ اپنی صفوں سے ایسے اراکین کو نکال پھینکیں جو اپنی حرکتوں سے ارکان اسمبلی کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔

رسول اللہ نے فرمایا کہ کسی عرب کو عجمی اور کسی عجمی کو عرب پر فوقیت حاصل نہیں، اس فرمان کو علامہ اقبال نے یوں بیان کیا۔

بند و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے