10 جولائی ، 2017
عدالت عظمیٰ میں پاناما پیپرز لیکس کیس کی سماعت کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی حتمی رپورٹ پیش کردی ہے جس کے مطابق شریف فیملی کے اثاثے آمدن سے زیادہ ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے لندن کی خسارے میں چلنے والی 6؍ آف شور کمپنیوں کو مہنگی جائیدادیں خریدنے اور رقوم منتقل کرنے کیلئے استعمال کیا گیا اور یہ کمپنیاں 80-90 کی دہائی میں بنیں جب نوازشریف کے پاس عوامی عہدہ تھا۔
رپورٹ کے مطابق ان کمپنیوں کے قیام میں اپنا سرمایہ بہت کم تھا، ملکی اور غیر ملکی اداروں سے رقم حاصل کی گئی، کمپنیاں یا تو بند پڑی تھیں یا خسارے میں تھیں، گزشتہ 20 برسوں میں ان کمپنیوں کا کوئی منافع نہیں ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نوازشریف، حسین، حسن اور مریم کے اثاثے ذرائع آمدنی سے زیادہ ہیں، ڈیکلیئرڈ اثاثوں اور ڈیکلیئر ذرائع آمدن میں گیپ ہے، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور برطانیہ میں کمپنیوں سے نوازشریف، مریم اور نوازشریف کی فیملی کی کمپنیوں کو خلاف ضابطہ قرضوں اور تحائف کی شکل میں رقوم منتقلی کا سراغ ملا ہے۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیسکول، نیلسن ،الانہ، لیمکن ،کومبر، ہلٹن برطانیہ میں 6؍ آف شور کمپنیاں ہیں، ان کمپنیوں کو برطانیہ، سعودی عرب، امارات اور پاکستان میں رقوم بھیجنےکیلئے استعمال کیا گیا، بھیجی گئی رقوم کا کوئی جواز پیش نہیں کیا گیا،ساری برطانوی کمپنیاں خسارے میں تھیں لیکن ان کے ذریعے بھاری رقوم منتقل کی جارہی انہیں آنکھوں میں پردہ ڈالنے اور بڑی بڑی پراپرٹیز کیلئے استعمال کیا گیا،
جے آئی ٹی نے کہا کہ ان ثبوت کی روشنی میں نیب آرڈیننس کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق مدعا علیہان کی آمدنی، دولت کے ظاہر کردہ ذرائع میں واضح تضاد پایا جاتا ہے، پاکستان میں موجود کمپنیوں کا مالیاتی ڈھانچہ مسول علیان کی دولت سے مطابقت نہیں رکھتا ،شریف فیملی کے اثاثے آمدن سے زیادہ ہیں، آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے لندن کی خسارے میں چلنے والی 6آف شورکمپنیوں کومہنگی جائیدادیں خریدنے اور رقوم کی منتقلی کیلئے استعمال کیا گیا، معلوم ذرائع سے زائد آمدن پر وزیراعظم نوازشریف اور انکے صاحبزادوں پر نیب آرڈیننس کی دفعہ 9 کے تحت ریفرنس درج ہونا چاہیئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بے قاعدہ ترسیلات لندن کی ہل میٹل کمپنی، یو اے ای کی کیپٹل ایف زیڈ ای کمپنیوں سے کی گئیں، بے قاعدہ ترسیلات اور قرض نواز شریف، حسین نواز اور حسن نواز کو ملا ہے۔
256 صفحات پر مشتمل رپورٹ کے مطابق بیانات اور تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مدعا علیہان کا رہن سہن ان کی آمدن سے زائد ہے جب کہ بڑی رقوم کی قرض اور تحفے کی شکل میں بے قاعدگی سے ترسیل کی گئی ہے۔
قبل ازیں جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سوموار کے روز کیس کی سماعت کی تو جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کی سربراہی میں جے آئی ٹی کے تمام اراکن پیش ہوئے اور دو بڑے بڑے سر بمہر کاٹنوں میں 10جلدوں پر مشتمل عملدرآمد رپورٹ پیش کی۔
رپورٹ پر انگلش میںEvidence لکھا ہوا تھا ،پیش کی گئی ،جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ وزیراعظم اور ان کے بچوں کو تحقیقات کے لئے بلایا گیا تھا اور پوچھ گچھ کے دوران ان کے بیانات سے جو نتیجہ اخذ کیا گیا ہے اس کے مطابق ان کے طرز زندگی اور معلوم آمدن میں بہت فرق ہے اور وہ تحقیقاتی ٹیم کو رقوم کی ترسیل کے ذرائع نہیں بتا سکے۔
رپورٹ کے مطابق جب حسن نواز اور حسین نواز سے رقوم کے بارے میں دریافت کیا گیا تو وہ کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے ، رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں قائم ʼہل میٹل اور متحدہ عرب امارات کی ʼکیپٹل ایف ای زیڈکمپنیوں کے علاوہ لندن میں قائم کمپنی ʼفلیگ شپ انویسٹمنٹ لمیٹڈ اور دیگر کی طرف سے رقوم، قرض اور تحائف کی بھاری ترسیل میں بے قاعدگی پائی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شریف خاندان نے برطانیہ میں قائم کمپنیوں کو نقصان میں ظاہر کیا ہے لیکن شدید نقصان میں ہونے کے باوجود بھاری رقوم کی ترسیل میں ملوث تھیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس لیے استعمال ہو رہی تھیں تاکہ ایسا محسوس ہو کہ ان برطانوی کمپنیوں کے کاروبار سے حاصل ہونے والی رقم کی مدد سے برطانیہ میں مہنگی جائیدادیں خریدی گئی ہیں۔
رپورٹ کےمطابق جے آئی ٹی نے برٹش ورژن آئی لینڈ سے مصدقہ دستاویزات حاصل کرلی ہیں، ایف زیڈ ای کیپیٹل کمپنی کے چیئرمین نواز شریف ہیں، ممکن ہےگلف اسٹیل مل کے واجبات کی ادائیگی نواز شریف نےظاہر نہ کی گئی دولت سے کی ہو، اہلی اسٹیل مل کے 25 فیصد شیئرز واجبات کی ادائیگی میں یا نئے کاروبار میں خرچ کیے گئے، اہلی اسٹیل مل کے بظاہر فروخت شیئرز شریف فیملی نے استعمال کیے، 25 فیصد شیئرز بظاہر 1978،1986 کے درمیان بیچے گئے۔
رپورٹ کے مطابق ممکن ہے اسٹیل مل کے25 فیصد شیئرز بیچ کر گلف اسٹیل مل کے واجبات کی ادائیگی ہوئی، ممکن ہے 14ملین درہم کے واجبات شیئر سیل کے ذریعے 1980میں ادا ہوئے، واجبات کی ادائیگی نہ ہوتی تو طارق شفیع بینک سے نیا قرض نہ لے سکتے۔
گلف اسٹیل مل سے متعلق رپورٹ کے ایک حصے میں متحدہ عرب امارات کی وزارت انصاف کے سرکاری جواب کو شامل کیا گیا ہے، جس کے مطابق بادی النظر میں کیس کے اہم مدعا علیہ اور وزیر اعظم نواز شریف کے کزن طارق شفیع کے بیانات کو مسترد کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات کے سرکاری جواب میں کہا گیا کہ انہیں2001 سے 2002 کے درمیان اسکریپ مشینری کی دبئی کی العہلی اسٹیل ملز سے جدہ منتقلی کا کوئی کسٹم ریکارڈ نہیں ملا، اسکریپ مشینری دبئی سےجدہ بھجوانےکامعاملہ جعلی ہے، بلکہ2001 سے 2002 کے عرصے میں بظاہر دبئی سے جدہ کوئی اسکریپ مشینری منتقل نہیں کی گئی۔
متحدہ عرب امارات کی وزارت انصاف کے سرکاری جواب میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ یو اے ای کی مرکزی بینک کے ذریعے طارق شفیع کی طرف سے فہد بن جاسم بن جبار بن الثانی کو ایک کروڑ 20 لاکھ درہم منتقل کرنے کا بھی کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔
رپورٹ میں وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ لندن میں نیسکول اور نیلسن کمپنیوں کی بینی فیشری ( مالک) ہیں، اور انہوں نے جے آئی ٹی میں جو دستاویزات پیش کی وہ جعلی تھیں، ان کی پیش کردہ منی ٹریل کا کوئی وجود نہیں ، دبئی اور پاکستان کے جن سرمائیوں سے مے فیئر فیلٹس کی خریداری کی بات کی گئی وہ جھوٹ پر مبنی ہے۔
رپورٹ کے صفحہ نمبر 230 سے 234 تک مریم نواز کے اثاثوں ، ٹیکس ، بینک ٹرائزیکشن، ریکارڈ کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں ، مریم نواز کو ملنے والے تحائف سمیت ٹوٹل اثاثوں کی تفصیلات کے مطابق 11-2010 میں ان کے اثاثے 102.93 ملین تھے۔ 12-2011 میں ان کے اثاثے 210.8 ملین تھے۔ 13-2012 میں ان کے پاس اثاثے 236.5 ملین تھے، 14-2013 میں ان کے اثاثے 347.6 ملین تھے، 15-2014 میں ان کے اثاثے 654.32 ملین تھے جبکہ 16-2015 کے دوران ان کے اثاثے 830.73 ملین تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 9 اے وی کے تحت یہ کرپشن اور بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے، لہذا ان کے خلاف نیب آرڈیننس کی دفعہ 9 کے تحت ریفرنس دائر کیا جا سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق حسین نواز کا نوازشریف کو 2009 میں بڑی ترسیلات زر بھیجنےکابیان متضاد ہے، حسین نواز نے 20 ستمبر 2010 کو ہی ایچ ایم ای کےاکاونٹ میں رقم منتقل کرنیکی ہدایت کی، نوازشریف نےجدہ کے بینک کو 75 ہزار ریال حسین نواز کے اکاونٹس میں منتقل کرنیکی ہدایت کی، دستاویزات نوازشریف اورایچ ایم ای کی فنڈنگ میں براہ راست تعلق ظاہرکرتی ہے، شریف خاندان کے برطانیہ، دبئی میں اثاثوں سے 88کروڑ روپے تحفوں کےنام پرمنتقل ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق اثاثوں میں بڑا اضافہ 2007،2008 میں سیاست میں نواز شریف کی واپسی پر نظر آیا،1991تا 1998 فرضی غیر ملکی کرنسی اکاونٹس فراڈ سے کھولےگئے، فرضی اکاونٹس پر قرضے لیے گئے،712ملین روپےمالیت کےشیئرزکے عوض قرضہ لیا گیا، اس قرضےکو 1998میں مکمل کیا گیا، یہ سیٹ اپ اسحاق ڈار نے تیار کیا تھا۔
642 ملین روپے قرضہ حدیبیہ پیپر ملز کےنام پر لیا گیا، ڈپازٹس کو حدیبیہ پیپرز، حدیبیہ انجینئرنگ کے فائدےکیلئے استعمال کیا گیا، رپورٹ کے مطابق جے آئی ٹی نے 6 ممالک سے قانونی معاونت طلب کی، جے آئی ٹی نے سوئٹزرلینڈ ، لکسمبرگ، آئس لینڈ کوبھی خطوط لکھے ،آئس لینڈ کے اٹارنی جنرل نے 3خطوط میں سے ایک کاجواب نہیں دیا، برطانیہ، سعودی عرب اور یو اے ای سے بھی قانونی معاونت مانگی گئی، برطانیہ کے ہوم آفس سے 7مختلف درخواستیں کی گئیں،سعودی وزارت داخلہ کو بھی جے آئی ٹی کی جانب سے خط لکھا گیا ،یو اے ای کی وزارت انصاف نے 7 میں سے4خطوط کاجواب نہیں دیا۔
رپورٹ کے مطابق ہل میٹل کےقیام اور چلانے کیلئے فنڈز کے ذرائع کے تناظر میں مزید 2دستاویزات ہیں۔ رپورٹ کے مطابق قطری شہزادے نے بہانے سے بیان ریکارڈ کرنے میں تاخیر کی، حقائق و شواہد سے لگتاہے قطری کا بیان رکارڈ کرنے کی ضرورت نہیں، شریف خاندان نے پانامالیک سے پہلے ہی ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی ملکیت تسلیم کرلی تھی۔
تمام میڈیا انٹرویوز میں قطری خاندان سے کاروباری معاملات پرکچھ نہیں کہا گیا، فاضل عدالت نے رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد رپورٹ کی کاپیاں فریقین کے حوالے کرنے کا حکم جاری کیا اور فریقین کے وکلاء کو آئندہ سماعت پر جے آئی ٹی کی رپورٹ پڑھ کر آنے کی ہدایت کے ساتھ کہا کہ وہ آئندہ پیشی پر وہ دلائل نہ پیش کیے جائیں جو اب تک دیئے جا چکے ہیں اور یہ حکم بھی دیا کہ جے آئی ٹی کے ارکان اور ان کے اہلخانہ کو تاحکم ثانی سکیورٹی فراہم کی جائے، اور ان سے متعلق کوئی بھی انتظامی فیصلہ عدالت کے علم میں لائے بغیر نہ کیا جائے۔
عدالت نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو پبلک کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی کے اراکین دس دن کے اندر سیکرٹریٹ خالی کر دیں ،جس پر واجد ضیاء نے یقین دہانی کرائی کہ وہ عدالت عظمی کے احکامات پر مکمل عمل کریں گے۔
یہ خبر 11 جولائی 2017 کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی۔