بلاگ
13 جولائی ، 2017

پاناما کا شاخسانہ

پاناما کا شاخسانہ

پاناما لیکس میں جہاں مختلف ممالک کے سربراہوں اور دیگر اہم  شخصیات کے نام سامنے آنے پر شور اٹھا، وہاں پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف کے بچوں کے نام سامنے آنے پر ان کے خاندان پر مخالفین نے تابڑ توڑ حملے شروع کردیئے۔

بات بڑھی اور یہ معاملہ سپریم کورٹ سے ہوتا ہوا جے آئی ٹی میں گیا ، جے آئی ٹی کی رپورٹ کے منظرعام پر آنے والے مندرجات سے تو لگتا ہے کہ یہ رپورٹ میاں نواز شریف، حسین نواز، حسن نواز اور مریم نواز  کے خلاف  جاتی ہے۔  اس کی زد سے اگر کوئی محفوظ ہے تو ہیں وزیراعظم کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز ۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے کچھ مندرجات سامنے آنے پر میاں نواز شریف کے خاندان اور ن لیگ کو پریشانی کا سامنا ہے اور وزیراعظم نوازشریف حکومتی وزراء ، مشیران اور قانونی ماہرین سے باقاعدہ بریفنگ لے رہے ہیں۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آنے پر جہاں سپریم کورٹ میں اسے چیلنج کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں وہیں پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ن لیگ میں یہ موضوع بھی زیر بحث ہے کہ اگر کسی طرح میاں نواز شریف کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا تو پھر کس کو وزیراعظم بنایا جا سکتا ہے۔

جتنے منہ اتنی باتیں، کسی کا کہنا ہے کہ اگر نواز شریف نااہل ہوئے تو پھر شہباز شریف وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوں گے۔ تجزیہ کاروں کے نزدیک بھی شہباز شریف ہی وہ شخصیت ہو سکتے ہیں جو اسٹیبلشمینٹ کو قابل قبول ہوں ۔ تاہم ان کے علاوہ خرم دستگیر، احسن اقبال ، شاہد خاقان عباسی اور چودھری نثار کے نام بھی سامنے آ رہے ہیں

میرے خیال میں تجزیہ کار اور اسٹیبلشمنٹ تو یہ نام سوچ رہے ہیں لیکن اس بارے میں ابھی تک وزیراعظم نواز شریف کے ذہن کو کوئی نہیں پڑھ سکا یا اس کی کوشش نہیں کی ۔ دوسری جانب میاں نواز شریف نے ابھی تک اپنا تیار کیا ہوا پلان "بی" کسی پر ظاہر نہیں کیا ۔ اگر انہوں نے اس موضوع پر کسی کو اعتماد میں لیا ہو گا تو وہ  بیگم کلثوم نواز اور مریم نواز ہو سکتی ہیں اور ان دونوں کو اس بارے میں قابل بھروسہ معلومات ہوسکتی ہیں۔

تجزیہ کار، صحافی اور اینکرپرسنز تو مختلف نام سوچ رہے ہیں اور اس پر اپنے تئیں دلائل بھی دے رہے ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ کوئی گڈے گڑیا کا کھیل ہے جس میں بچے فیصلہ کر رہے ہیں کہ شادی کیسے ہو ؟؟ ارے بھائی یہ اقتدار کا معاملہ ہے وزیراعظم بنانے کی بات ہے اور پھر کیا میاں صاحب کے خاندان میں قیادت کا فقدان ہے جو میاں نواز شریف وزارت عظمیٰ کا عہدہ اپنے خاندان سے باہر کسے دیں گے۔ دوسری بات یہ کہ جس شخص کو اپنے گھرانے کے خلاف ایک مذموم سازش ہوتی نظر آرہی ہو وہ اتنا بڑا اور اہم عہدہ اپنے خاندان سے باہر کیوں دے گا؟

انتہائی قریبی خاندانی ذرائع نے بتایا کہ پاناما کا ہنگامہ شروع ہونے کے بعد میاں نواز شریف بعض باتوں پر میاں شہباز شریف سے ناراض بھی رہے ہیں ۔ ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ میاں شہباز شریف کا اوکاڑہ کے جلسے میں نا جانا اور ننکانہ صاحب میں موٹروے کے افتتاح کے موقع پر ان کا نہ بلایا جانا بے معنی خیز ہے ۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب انہوں نے میاں شہباز شریف سے پوچھا کہ آپ ان جگہوں پر کیوں نہیں گئے تو انہوں نے جواب دیا کہ انہیں بلایا ہی نہیں گیا۔ اگر ان باتوں کو درست بھی مان لیا جائے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاست میں کچھ بھی مستقل نہیں ہوتا ۔ کبھی کبھی تو سامنے کچھ اور پس پردہ کچھ اور چل رہا ہوتا ہے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کئی جگہوں پر نواز شریف نے شہباز شریف کی تعریف بھی کی ہے۔

میرے ذرائع کا یہ بھی ماننا ہے کہ مختلف طاقتور قوتیں میاں شہباز شریف کو متبادل قیادت کے طور پر آگے لانے کی کوشش کررہی ہیں۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ نوازشریف اور شہباز شریف کی طرز سیاست مختلف ہے۔ یہ تمام باتیں اور دلائل اپنی جگہ میری رائے ہے کہ میاں شہباز شریف کسی طرح بھی اپنے بڑے بھائی کے سامنے کھڑا ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔

میں پھر وہی کہوں گا کہ جتنے منہ اتنی باتیں، تجزیہ کار اپنے اپنے جائزے پیش کررہے ہیں اور مختلف قوتیں اپنا کام کررہی ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے میرا تجربہ کہتا ہے کہ اگر نواز شریف نااہل ہوئے تو اسی طرح کا عبوری بندوبست ہوگا جیسا کہ شوکت عزیز کو وزیراعظم بنانے کے لئے چودھری شجاعت کو عبوری مدت کے لیے اس عہدے پر فائز کیا گیا تھا اور پھر شوکت عزیز کو انتخابات میں کامیاب کرواکر وزیراعظم بنا دیا گیا۔  ایسا ہو سکتا ہے کہ میاں نواز شریف وقتی طور پر خواجہ آصف کو وزیراعظم بنا دیں پھر اپنی اہلیہ کلثوم نواز کو انتخابات میں کامیاب کروا کے وزیراعظم بنا سکتے ہیں۔

اس سیٹ اپ کی مخالفت میں یہ کہا جاتا ہیں کہ بیگم کلثوم نواز یا مریم نواز کو حکومت چلانے کا تجربہ نہیں ہے اور ان حالات میں یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ مگر میرا تجزیہ ہے کہ بیگم کلثوم نواز حکومت چلانے کی اتنی ہی اہل ہیں جتنا نواز شریف۔

قریبی خاندانی دوست جانتے ہیں کہ بیگم کلثوم نواز پڑھے لکھے گھرانے کی ایک پڑھی لکھی اور قابل خاتون ہیں۔ میاں نواز شریف جب سے سیاست کر رہے میں اور حکومتی نظام چلا رہے ہیں اتنا ہی تجربہ بیگم کلثوم نواز کو بھی ہے ۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب نواز شریف اور بچے قید میں تھے تو ان کی رہائی کے لیے بیگم کلثوم نواز اور مریم نواز کا زبردست اور کامیاب تحریک چلانا بتاتا ہے کہ بیگم کلثوم اور مریم نواز منجھی ہوئی سیاست دان ہیں۔ اس طرح محترمہ کلثوم نواز ہر طرح سے حکومت چلانے کی اہل ہیں۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نواز شریف جس کے سر پر ہاتھ رکھیں گے وہ ہی وزیراعظم بنے گا۔


 رئیس انصاری جیوز نیوز لاہور کے بیورو چیف ہیں۔