01 اگست ، 2017
سپریم کورٹ میں چیرمین تحریک انصاف عمران خان کی نااہلی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آبزرویشن دی ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کی رقم ضبط ہوسکتی ہے لیکن نااہلی کیسے بنتی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بینچ تحریک انصاف کی غیرملکی فنڈنگ اور عمران خان کی نااہلی کی درخواست کی سماعت کر رہا ہے۔
سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل انور منصور سے سوال کیا کہ یہ بات درست ہے کہ پی ٹی آئی یو ایس ایل ایل سی آپ کی ایجنٹ ہے، اگر ممنوعہ فنڈ پاکستان بھیجے تو کیا وہ قبول کرنا چاہیے جس پر انور منصور نے اعتراف کیا کہ یو ایس ایل ایل سی ہماری ایجنٹ ہے جو فنڈ جمع کرتی ہے تاہم عمران خان نے ہمیشہ ممنوعہ فنڈ نہ لینے کی ہدایت کی اور کبھی ممنوعہ فنڈ آیا تو ہم نے واپس کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ، عوامی نمائندگی ایکٹ میں غلط سرٹیفکیٹ پر نااہلی کی سزا کا ذکر نہیں، قانون میں غلطی اور اس کے نتائج دونوں درج ہوتے ہیں، قانون میں ممنوعہ فنڈنگ ضبط کیے جانے کا ذکر ہے تو اس پر نااہلی کیسے بنتی ہے۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ غیر ملکی کمپنی سے فنڈز لینے کا معاملہ نوٹس میں آیا ہے، ایجنٹ نے قانون اور ہدایات پر عمل کرنے کا سرٹیفکیٹ بھی پیش کیا جب کہ امریکا کے اندر فنڈز لینے پر پابندی نہیں۔
اس موقع پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ "فارا" ( فارن ایجنٹ رجسٹریشن ایکٹ) تحریک انصاف کی ریگولیٹر نہیں جس پر حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ "فارا" کی ویب سائٹ پر تمام معلومات درج ہیں، تحریک انصاف چاہتی تو ویب سائٹ پر دیکھ سکتی تھی، یہ کہنا کہ ایجنٹ کی غلطی ہے درست نہیں۔
چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا ایسی فہرست ہے جس میں کارپوریشنز سے بیرون ملک فنڈز لیے گئے، کیا آپ فنڈ کی تفصیلات فارا کو دیتے ہیں اور جو لسٹ فارا کی ویب سائٹ پر ہے اس پر وکیل اکرم شیخ مختلف کیوں کہہ رہے ہیں جس پر انور منصور نے کہا کہ ہمارے پاس اپنے فنڈز کی تفصیل ہوتی ہیں، ایجنٹ کو اسی دائرہ اختیار میں کام کرناہوتا ہے جس کا وہ مجاز ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ممنوعہ فنڈنگ کی رقم ضبط ہو سکتی ہے، نااہلی کیسے بنتی ہے، کیا فرائض کی غفلت برتنے پر نااہل کردیں جس پر وکیل حنیف عباسی نے کہا کہ آپ کی آبزرویشنز ہیڈ لائنز بنا دیں گی، میری بات سنے بغیر آبزرویشن دیں گے تو منفی تاثر جائے گا۔
وکیل حنیف عباسی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے ایجنٹ حاجی نصراللہ نے غیر ملکیوں، ملٹی کارپوریشنز، اور بھارتی کمپنیوں اور شہریوں سے رقم لے کر پاکستان بھیجی جب کہ حاجی نصراللہ نے سرٹیفکیٹ دیا کہ وہ ایجنٹ ہے اور کوئی ممنوعہ فنڈنگ نہیں لی، معاہدے کے تحت ایجنٹ پی ٹی آئی اور فارا کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے، عمران خان جب چاہیں ایجنٹ کے ساتھ معاہدہ ختم کر سکتے ہیں۔
حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کو کیرزما ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سمیت سب کو مرعوب کرلیں جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ 'یہ بات کر کے آپ ہیڈ لائن بنوانا چاہتے ہیں، ایجنٹ کا کام صرف فنڈز اکٹھا کرنا ہوتا ہے'۔ اکرم شیخ نے کہا کہ آپ کی آبزرویشن کا مطلب ہے کہ آپ میری استدعا سنے بغیر ایک نتیجے پر پہنچ گئے ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایجنٹ سیاسی جماعت کی تنظیم یا نمائندہ نہیں ہوسکتا جب کہ چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان نے خلاف قانون فنڈ نہ لینے کی ہدایت کی تھی اس لئے کیا ذمے داریوں سے لاپرواہی پر نااہلی ہوسکتی ہے۔
وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ ممنوعہ فنڈنگ نہ لینے کا غلط سرٹیفکیٹ دینا بھی نااہلی کا سبب بنتا ہے، اثاثے چھپانے کا معاملہ عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت آتا ہے جب کہ عدالت حکومت کو تحقیقات کا حکم دے سکتی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے تو عمران خان کا سرٹیفکیٹ غلط ثابت کرنا ہوگا، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کارروائی کرنی ہے یا نہیں منتخب حکومت کا اختیار ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کو عدالتی ہدایت کی ضرورت نہیں، حکومت ازخود کیوں نہیں غیر ملکی فنڈنگ کی تحقیقات کرتی۔
حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ عمران خان کی بائیو گرافی عدالت میں پیش کروں گا، پاکستان کا پہلا کینسر اسپتال عمران خان نے بنایا اور وہ اسٹیبلشمنٹ سمیت سب کو متاثر کر لیتے ہیں جس پر جسٹس عمر بندیال نے کہا کہ لگتا ہے آپ عدالت سے نہیں میڈیا سے مخاطب ہیں، آپ کا مقصد صرف ہیڈ لائنز لگوانا ہے جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ مجھے یہ بھی علم نہیں کہ میڈیا عدالت میں موجود ہے۔
اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کی جانب سے عدالت میں فنڈز دینے والوں کی جعلی فہرست پیش کی گئی، عدالت میں صرف ممنوعہ سیاسی فنڈنگ کی بات کررہا ہوں، پی ٹی آئی کو 25 یا 30 ہزار ڈالر تک بھی فنڈ دیے گئے ہیں جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کیا زیادہ فنڈ دینے پر پابندی ہے، ایک بندہ دس بندوں کی جگہ چندہ دے سکتا ہے، ممکن ہے 6دوست ہوں اورایک نےسب کےپیسےدیےہوں جس پر اکرم شیخ نے کہا پابندی نہیں لیکن فنڈ دینے والے کا نام درج نہیں۔
چیف جسٹس نے اکرم شیخ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جو دلائل دے رہے ہیں یہ جواب الجواب میں نہیں دیے جاتے جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ عدالت نے 500 روپے کا بینک اکاؤنٹ چھپانے پر بھی لوگوں کو نااہل قرار دیا ہے۔
اکرم شیخ نے کہا کہ تحریک انصاف کی جمع کرائی گئی دستاویزات فاراسےمطابقت نہیں رکھتیں، پی ٹی آئی نےتسلیم کیاکہ کیلیفورنیاسے11لاکھ66ہزارڈالرلیے، دنیامیں کہیں نہیں ہوتاکہ فنڈنگ کےذرائع نہ پوچھے جائیں، امریکا سے پیسے آنا خطرناک بات ہے جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ یہ ایک اچھی بات ہے کہ بیرون ملک سے فنڈز آ رہے ہے، کیا حکومتیں امریکا سے پیسے نہیں لیتیں۔
حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ تحریک انصاف کے کاغذات خود کہہ رہے ہیں کہ ہم جعلی ہیں اور کیا عدالت اس سلوک کی مستحق ہے کہ ایسی دستاویزات دی جائیں جس پر عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ جعلی کاغذات بنانے ہوتے تو کہیں کسٹم اکاؤنٹ نہ لکھا ہوتا، کسٹم اکاؤنٹ کی جگہ کسی کا نام بھی دیا جاسکتا تھا۔
اکرم شیخ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کا زیادہ تر فنڈ ممنوعہ ذرائع سے ہے، برائٹ اسمائل سمیت 195 کمپنیوں سے فنڈز لیے گئے اور فنڈنگ کے ذرائع میں شفافیت نہیں جب کہ چند ناموں کو بار بار لکھا گیا ہے جس پر جسٹس عمر بندیال نے کہا کہ فارن پالیسی معاملات کا عدالتی کارروائی سے کوئی تعلق نہیں۔
خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کی جانب سے سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کی غیر ملکی فنڈنگ اور نامعلوم ذرائع سے بنی گالا کی رہائش گاہ کی خریداری پر درخواست دائر کی گئی جس میں عدالت سے عمران خان کی نااہلی کی استدعا کی گئی ہے۔