23 اگست ، 2017
سربراہ پاک فوج جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان میں تعینات امریکی سفیر پر واضح کیا ہے کہ پاکستان کو امریکا سے کسی مالی اور عسکری امداد کی کوئی ضرورت نہیں۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کے مطابق امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے سربراہ پاک فوج سے ملاقات کی اور انہیں امریکا کی نئی افغان پالیسی کے بارے میں آگاہ کیا۔
اس موقع پر آرمی چیف نے امریکی سفیر پر واضح کیا کہ ’ہمیں امریکا سے کسی بھی مالی اور عسکری امداد کی کوئی ضرورت نہیں، ہمارےکردار اور اعتماد کو تسلیم کیے جانے کی ضرورت ہے‘۔
سربراہ پاک فوج نے کہا کہ افغانستان میں امن جتنا پاکستان کے لئے اہم ہے اتنا ہی دوسرے ممالک کے لئے اہم ہے، پاکستان نے بھرپور کردار ادا کیا اور کسی کو خوش کرنے کے بجائے اپنے قومی مفاد اور قومی پالیسی کے تحت کرداد ادا کرتا رہے گا۔
آرمی چیف نے کہا کہ افغانستان میں جاری طویل جنگ کو منطقی نتیجے پر پہنچانے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کا تعاون کامیابی کی کنجی ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے نئی امریکی پالیسی سے متعلق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو آگاہ کیا۔
امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردار کی قدر کرتا ہے اور افغان مسئلے کے حل کے لیے پاکستان سے تعاون کا خواہاں ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 22 اگست کو پاکستان، افغانستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق اپنی نئی پالیسی کا اعلان کیا تھا۔
صدر ٹرمپ کا پالیسی اعلان کے موقع پر خطاب کے دوران پاکستان پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان کو اربوں ڈالر دیتے ہیں مگر وہ دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے، پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں پر خاموش نہیں رہیں گے۔
پاکستان کے خلاف سخت رویہ اپناتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ افغانستان میں ہمارا ساتھ دینے سے پاکستان کو فائدہ اور دوسری صورت میں نقصان ہوگا۔
امریکی صدر نے اپنے خطاب میں بھارت کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں بھارت کے کردار کے معترف ہیں اور چاہتے ہیں کہ بھارت افغانستان کی معاشی ترقی میں کردار ادا کرے۔
دوسری جانب امریکی صدر کی جانب سے پاکستان پر الزامات کے بعد چینی وزارت خارجہ کی جانب سے بھی بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ عالمی برادری پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرے۔
چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چنینگ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان فرنٹ لائن پر رہا اور پاکستان نے اس جنگ میں عظیم قربانیاں اور تعاون پیش کیا جس کی قدر کی جانی چاہیے۔