Time 31 اگست ، 2017
پاکستان

بے نظیر قتل کیس کا فیصلہ: مشرف اشتہاری، 5 ملزمان بری، پولیس افسران کو سزا


راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے بے نظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے جس میں 5 ملزمان کو بری، 2 کو سزا جب کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کی جائیداد کی قرقی کا حکم دیا ہے۔

عدالت کے فیصلے میں پانچ گرفتار ملزمان رفاقت، حسنین، رشید احمد، شیر زمان اور اعتزاز شاہ کو بری کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

عدالتی فیصلے میں سابق ایس پی خرم شہزاد اور سابق سی پی او سعود عزیز  کو مجموعی طور پر 17، 17 سال قید کی سزا سنائی گئی جبکہ دونوں کو پانچ، پانچ لاکھ جرمانہ جمع کروانے کا بھی حکم دیا گیا۔

دونوں ملزمان کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا گیا ہے۔ حملے کے وقت سعود عزیز سی پی او راولپنڈی اور خرم شہزاد ایس پی تھے۔

خیال رہے کہ 27 دسمبر2007ء کو لیاقت باغ میں انتخابی جلسے کے بعد روانگی پر لیاقت باغ چوک میں خود کش حملے کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو شہید ہوگئی تھیں جب کہ سانحہ کا مقدمہ تھانہ سٹی پولیس میں درج کیا گیا تھا۔

2008ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی لیکن اس دوران سابق وزیراعظم کے مقدمہ قتل میں کوئی حوصلہ افزا پیش رفت نہ ہوسکی تھی۔

بے نظیر بھٹو کے قتل کیس کی 300 سے زائد سماعتیں ہوئیں جبکہ دوران سماعت انسداد دہشت گردی عدالت کے6 ججز تبدیل ہوئے۔

استغاثہ کے141 میں سے67 گواہوں کے بیانات رکارڈ کیے گئے۔ دیگر گواہوں کو غیر ضروری قرار دے کر ترک کر دیا گیا۔

فیصلے کے اہم نکات

  • رفاقت ، حسنین ، رشید احمد ، شیر زمان اور اعتزاز شاہ کو بری کرنے کا حکم

  • سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف اشتہاری قرار، جائیداد قرقی کا حکم

  • سابق ایس پی خرم شہزاد کو مجموعی طور 17 سال کی سزا کا حکم

  • سابق سی پی او سعود عزیز کو مجموعی طور پر 17 سال قید کی سزا


کیس میں سات چالان جمع کرائے گئے، 29 فروری 2008 میں کیس کا ٹرائل شروع ہوا جبکہ 20اگست 2013 کوکیس کا ازسر نو ٹرائل شروع ہوا۔

کیس میں مجموعی طور پر 15 ملزمان تھے جن میں مرکزی ملزمان بیت اللہ محسود، کمانڈر عباد الرحمان، عبداللہ، فیض محمد اور بلال عرف سعید تھے۔

بلال سعید خودکش حملہ آور تھا جس نے بے نظیر بھٹو کی گاڑی کے قریب خودکش حملہ کیا جب کہ دوسرا حملہ آور اکرام اللہ تھا جس نے اپنے آپ کو دھماکے سے نہیں اڑایا۔

بیت اللہ محسود اکرام اللہ اور بلال سعید خودکش حملے میں مارا گیا جب کہ دیگر ملزمان فورسز سے مقابلے میں ہلاک ہوئے۔

کیس میں پہلی حراست فروری 2008 میں ہوئی جب فورسز نے مانسہرہ کے رہائشی اعتزاز شاہ کو گرفتار کیا جس کی نشاندہی پر شیر زمان، حسین گل، محمد رفاقت اور رشید احمد کی گرفتاری عمل میں آئی۔

راولپنڈی کے علاقے قائد اعظم کالونی کے رہائشی رفاقت کو کیس میں سہولت کار بتایا گیا جس کے پاس 26 دسمبر 2007 کو بمبار اور دیگر ساتھی آئے تھے جب کہ دیگر ملزم رشید احمد، اعتزاز شاہ اور شیر زمان کو اس سازش کا علم تھا۔

راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے گزشتہ روز بے نظیر بھٹو قتل کیس کی سماعت کے دوران وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے اڈیالہ جیل میں کیس کا فیصلہ سنایا جب کہ عدالت نے 10 سال بعد سماعت مکمل کی۔ 

فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے پراسیکیوٹر چوہدری اظہر کا میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہر ملزم کے خلاف مضبوط اور ٹھوس شہادتیں ہیں جب کہ سابق سی سی پی او سعود عزیز سہولت کار ہیں جنہوں نے بے نظیر بھٹو کو سیکیورٹی نہیں دی۔

چوہدری اظہر کے مطابق سابق وزیراعظم کے مقدمہ قتل کے 121 گواہان تھے جن میں سے صرف 68 کے بیانات ریکارڈ کئے گئے جب کہ بے نظیر بھٹو کے ڈرائیور عبدالرحمان کے علاوہ سب سے تفتیش کی گئی۔

پراسیکیوٹر ایف آئی اے نے کہا کہ بے نظیر کے قافلے میں بیک اپ گاڑی میں بابر اعوان اور دیگر لوگ تھے جب کہ بیک اپ گاڑی فرحت اللہ بابر کے کنٹرول میں تھی۔

چوہدری اظہر نے بتایا کہ بے نظیر بھٹو قتل کا مقدمہ 8 بجکر 20 منٹ پر درج ہوا تو مقدمہ درج ہونے سے پہلے تفتیش شروع نہیں ہوتی۔

سابق صدر پرویز مشرف کے حوالے سے ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ پرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی کا معاملہ وفاقی حکومت کا اپنا ہے تاہم پرویز مشرف کی حاضری معاف ہوئی تھی انہیں القاعدہ سے خطرہ تھا لیکن ان کے وکیل پیش ہوتے رہے ہیں۔


مزید خبریں :