13 ستمبر ، 2017
سپریم کورٹ میں شریف خاندان کی جانب سے پاناما نظر ثانی اپیلوں کی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل نے حتمی فیصلے میں 5 ججز کے بیٹھے پر اعتراضات اٹھائے جس پر سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ متفقہ تھا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے شریف خاندان کی جانب سے دائر نظرثانی اپیلوں کی سماعت کی۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے ان کے وکیل خواجہ حارث اور حسن، حسین اور مریم نواز کی جانب سے سلمان اکرم راجا ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے 28 جولائی کے فیصلے میں 5 رکنی بینچ پر اعتراضات اٹھائے۔
وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پانچ رکنی بینچ میں سے 2 ججز نے 20 اپریل کو نواز شریف کے خلاف درخواستیں منظور کرتے ہوئے نااہل قرار دیا اور ان ہی دو ججز نے 28 جولائی کو بھی مختلف فیصلے پر دستخط کئے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ اگر 2 ججز کو 3 ججز کے فیصلے سے اختلاف ہے تو نظر ثانی تین ججز کو سننی چاہیے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہی بات تو کل بھی آپ کو سمجھا رہے تھے، آپ کے اصرار پر پانچ رکنی بینچ نظرثانی سن رہا ہے، ورنہ نظرثانی کی اپیلیں تین ججز بھی سن سکتے تھے۔
اس موقع پر خواجہ حارث نے کہا کہ جنہوں نے کیس نہیں سنا تھا ان کے سامنے نظرثانی پر کیا دلائل دوں جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ ہمیں چھوڑیں اور صرف تین ججز کو اپنے دلائل سے قائل کرلیں، ہم دو جج تین ججز کے فیصلے سے اختلاف کریں یا نہ کریں اس سے فرق نہیں پڑتا۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ ہم نے کل کہا تھا کہ دو ججز صرف بیٹھے رہیں گے جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا عدالت میں خاموش ہو کر نہیں بیٹھ سکتے۔
خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ ڈکشنری میں تنخواہ سے متعلق تعریفیں موجود ہیں کہ اثاثہ وہ ہوتا ہے جو مالک کے قبضے میں ہو تو عدالت نے وہی تعریف کیوں چنی جو نواز شریف کے خلاف جاتی تھی اور نااہلی کے لیے موجود طریقہ کار سے ہٹ کر فیصلہ کیسے ہو سکتا ہے۔
اس موقع پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر کسی کا بینک میں پیسا ہے تو وہ کیا بینک کا ہے، آپ کی یہ دلیل درست نہیں جب کہ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ افتخار چیمہ کو زیر کفالت افراد کے اثاثے ظاہر نہ کرنے پر نااہل کیا گیا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ اثاثے ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے پورا میکنزم موجود ہے، اس میکنزم کے مطابق ملزم کو وضاحت کا موقع دیا جاتا ہے تاہم کیپٹل ایف زیڈ ای کا معاملہ عدالت کے سامنے نہیں اٹھایا گیا تو تنخواہ نہ وصول کرنے یا ظاہر نہ کرنے پر 62 ون ایف کیسے لگتا ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ نواز شریف کیپٹل ایف زیڈ ای کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے چیرمین تھے جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اثاثے چھپانے پر الیکشن کالعدم قرار دیا جاتا ہے لیکن آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
خواجہ حارث نے عدالت میں سوال اٹھایا کہ جن ججز نے ایف زیڈ ای کے معاملے پر سماعت نہیں کی تو انہوں نے دستخط کیسے کردیے۔
جسٹس اعجاز افضل نے خواجہ حارث سے سوال کیا کہ مینارٹی یا اکثریتی فیصلوں میں کہیں لکھا ہے کہ نااہلی زندگی بھر کے لئے ہے، جسٹس عظمت نے کہا 'اقلیتی فیصلہ تقاریر میں تضاد اور آمدن کے ذرائع نہ بتانے سے متعلق تھا'۔
جسٹس آصف کھوسہ نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ براہ راست نااہل نہیں کرنا چاہیے تھا، اگر دیگر فورم نااہل نہ کریں اور اپیل میں سپریم کورٹ نااہل کردے تو کیا ہوگا۔
اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ نااہلی کے لیے صفائی کا موقع اور اپیل کا حق دیا جاتا ہے اور میرا کہنے کا مقصد ہے کیا ان ساری باتوں پر 62 ون ایف لگنا چاہیے تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم نے بہت محتاط رہ کر ججمنٹ لکھی، اگر آپ چاہتے ہیں کہ باقی بھی لکھیں تو پھر شکایت نہ کیجئے گا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ہمیں 20 اپریل 2017 کا فیصلہ منظور ہے جو اکثریتی تھا لیکن 28 اپریل کو حتمی حکم جاری کرنے والا بینچ صحیح نہیں بنایا گیا کیوں کہ دو معزز ممبران پہلے ہی فیصلہ دے چکے تھے اس لئے وہ حتمی فیصلے میں نہیں بیٹھ سکتے تھے۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ 2 ممبران کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا گیا اس کا مطلب ہے آپ نے فیصلہ قبول کیا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اقلیتی فیصلے کی قانونی اہمیت نہیں ہوتی اس لئے اسے چیلنج نہیں کیا گیا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے 2 ججز کے فیصلے کو اقلیتی قرار دیا لیکن تین ججز نے کہاں لکھا ہے کہ 2 ججز کا فیصلہ ردی کی ٹوکری میں چلا گیا، دونوں فیصلوں میں نواز شریف کو نااہل کیا گیا جب کہ 28 جولائی سے قبل یہ بتا دیا تھا کہ تمام ججز حتمی فیصلے پر پہنچ چکے ہیں۔
خواجہ حارث نے سوال اٹھایا کہ جب آپ 20 اپریل کو فیصلہ دے چکے تو دوبارہ کیسے آسکتے ہیں اور 20 اپریل کو دو معزز ممبران نے اپنی حتمی رائے دے دی تھی اور 20 اپریل کے فیصلے کو حتمی فیصلے کا حصہ بھی نہیں بنایا گیا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ درخواست گزار کو فیئر ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا، نہ شوکاز نوٹس دیا گیا اور نہ ہی موقع دیا گیا کہ وہ وضاحت کریں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ 28 جولائی کو 2 ججز نے فیصلے میں کوئی اضافہ نہیں کیا صرف دستخط کئے تھے، عدالتی فیصلے پر ہر جج دستخط کرنے کا پابند ہوتا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ تینوں میں سے کسی جج نے نہیں کہا وہ اقلیتی فیصلے سے اختلاف کر رہے ہیں، نااہلی اور ریفرنس نیب کو بھیجنے کے معاملے پر ہمارا نتیجہ ایک ہی تھا۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس میں کہا کہ 20 اپریل کو دو ججز نے فیصلہ دیا تھا مگر کیس ختم نہیں ہوا، پہلے فیصلہ دینے والے ججز نے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کیا اور ایک آرڈر سے کیس کا حتمی نتیجہ آنا تھا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ نگراں جج نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینے والے بینچ کا بھی حصہ تھے جب کہ نگراں جج کی تعیناتی سے نواز شریف کے بنیادی حقوق بھی متاثر ہوئے۔
نواز شریف کے وکیل نے سوال اٹھایا کہ نگراں جج کے ہوتے ہوئے شفاف ٹرائل کیسے ہوگا، مانیٹرنگ جج لگانے کی کوئی مثال نہیں ملتی، جب کہ ریفرنس کا معاملہ اپیل میں سپریم کورٹ میں ہی آنا ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت نے جے آئی ٹی ارکان کے فیصلے میں تعریفیں بھی کیں اور اس معاملے میں سپریم کورٹ شکایت کنندہ بن گئی ہے جس پر جسٹس عظمت سعید نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تعریفیں تو ہم نے آپ کی بھی کافی کی ہیں جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ میری تعریف بے شک فیصلے میں حذف کردیں۔
عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد سماعت کل تک کے لئے ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے 28 جولائی کو پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیتے ہوئے نیب کو نواز شریف، ان کے بچوں اور اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔