کوئٹہ میں خودکش دھماکا، ڈی آئی جی سمیت 3 اہلکار شہید

دھماکے کے نتیجے میں ڈی آئی جی کی گاڑی بھی تباہ ہوگئی — فوٹو : آن لائن

صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس (ڈی آئی جی) موٹر ٹرانسپورٹ اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن حامد شکیل سمیت 3 اہلکار شہید ہوگئے۔

پولیس کے مطابق ایئرپورٹ روڈ پر حامد شکیل کے قافلے کے قریب ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں 8 افراد زخمی بھی ہوئے۔

ذرائع کے مطابق حامد شکیل کی گاڑی کو اُس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ چمن ہاﺅسنگ اسکیم میں واقع اپنے گھر سے نکل رہے تھے۔

دھماکے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا — فوٹو : آئن لائن

ایس ایس پی آپریشنز نصیب اللہ نے دھماکے میں ڈی ایس پی حامد شکیل سمیت 3 اہلکاروں کی شہادت کی تصدیق کی۔

دھماکے میں شہید ہونے والے حامد شکیل ایس ایس پی ٹریفک کےطور بھی فرائض سرانجام دے چکے تھے۔

دھماکےکے زخمیوں کو کمبائنڈ ملٹری ہسپتال (سی ایم ایچ) منتقل کردیاگیا، جہاں دو پولیس اہلکاروں کی حالت تشویش ناک بتائی گئی۔

دھماکے کے نتیجے میں  ڈی ایس پی کی گاڑی کے علاوہ 3 گاڑیوں کوبھی نقصان پہنچا۔

 ڈائریکٹر سول ڈیفنس اسلم ترین کے مطابق دھماکا خود کش تھا،  تاہم اس حوالے سے حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ خودکش حملہ آور پیدل تھا یا موٹرسائیکل پر سوار تھا۔

سول ڈیفنس ذرائع کے مطابق دھماکے میں 10 سے 15 کلو گرام دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا۔

دوسری جانب خودکش حملہ آور کے جسمانی اعضاء کو قبضے میں لے کر انہیں فرانزک ٹیسٹ کے لیے بھجوا دیا گیا۔

اس سے قبل دھماکے کی اطلاع ملتے ہی سیکیورٹی اور ریسکیو ادارے موقع پر پہنچے اور جائے وقوع کو سیل کرکے شواہد اکٹھے کرنے کا کام شروع کردیا گیا تھا۔

آرمی چیف کی کوئٹہ دھماکے کی مذمت

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کوئٹہ خودکش دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ ڈی آئی جی حامد شکیل جیسی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔

دوسری جانب آرمی چیف نے قیام امن کے لیے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں کو بھی سراہا۔

ڈی آئی جی حامد شکیل کون تھے؟

دھماکے میں شہید ہونے والے ڈی آئی جی حامد شکیل—۔فائل فوٹو

کوئٹہ دھماکے میں شہید ہونے والے ڈی آئی جی حامد شکیل بلوچستان پولیس کے ہونہار، نڈر اور بے باک افسر کےطور پر جانے جاتے تھے، انہیں 6 ماہ قبل پروموشن کےبعد ڈی آئی جی موٹر ٹرانسپورٹ اور ٹیلی کمیونیکیشن بلوچستان تعینات کیا گیا تھا۔

بلوچستان کے ضلع خضدار میں پیدا ہونے والے حامد شکیل 1988 میں بلوچستان پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے محکمہ پولیس میں ڈی ایس پی بھرتی ہوئے تھے۔

ان کے والد پاک فوج میں افسر تھے، بطور ڈی ایس پی تعیناتی کے بعد حامد شکیل ترقی کی منازل طےکرتے ہوئے ایس پی، ایس ایس پی اور پھر ایڈیشنل آئی جی کےعہدوں پرفرائض کی انجام دہی کے بعد ڈی آئی جی موٹر ٹرانسپورٹ اور ٹیلی کمیونیکیشن تعینات کیے گئے تھے۔

انہوں نے ایس پی کوئٹہ سٹی، صدر اور بعد میں ایس ایس پی آپریشن، ایس ایس پی انویسٹی گیشن، ایس ایس پی ٹریفک اور ایس ایس پی قلعہ عبداللہ کےطور بھی خدمات سرانجام دیں۔

اس دوران وہ اے آئی جی ایڈمن اور ڈیویلپمنٹ بھی رہے۔

حامد شکیل نے پسماندگان میں ایک بیوہ اور تین بیٹے چھوڑے ہیں۔

وہ چار ماہ میں دہشت گردوں کا نشانہ بننے والے تیسرے پولیس افسر ہیں۔

کوئٹہ سمیت بلوچستان کے اکثر علاقوں میں پولیس اور سیکیورٹی اداروں کو نشانہ بنایا جاتا رہتا ہے۔

گذشتہ ماہ 18 اکتوبر کو کوئٹہ میں فورسز پر حملوں کے نتیجے میں ایلیٹ فورس کے جوانوں اور پولیس انسپکٹر سمیت 6 اہلکار شہید ہوگئے تھے جب کہ دیگر 2 افراد بھی دھماکے میں جاں بحق ہوئے تھے۔

اس سے قبل 13 اکتوبر کو بھی کوئٹہ کے فقیر محمد روڈ پر فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار جاں بحق جب راہ گیر سمیت 3 افراد زخمی ہوئے تھے۔


نوٹ: اس سے قبل خبر میں حامد شکیل کو ایس ایس پی لکھا گیا تھا، جسے اب درست کرلیا گیا ہے، اس غلطی پر ہم قارئین سے معذرت خواہ ہیں۔

مزید خبریں :