14 نومبر ، 2017
سپریم کورٹ نے چیرمین تحریک انصاف عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی سے متعلق حنیف عباسی کی درخواست پر سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے سماعت کے دوران آبزرویشن دی کہ عمران خان نے لندن فلیٹ ظاہر کیا لیکن کبھی آف شور کمپنی ڈکلیئر نہیں کی۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کی عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف دائر الگ الگ درخواستوں پر سماعت کی۔
سماعت شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں 3 سوال اٹھائے گئے تھے، سورس آف لندن پراپرٹی، کتنی قیمت پر بیچا گیا اور رقم کہاں خرچ ہوئی اور لندن پراپرٹی پاکستان میں کب ڈکلیئر کی گئی۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایمنسٹی اسکیم کے تحت لندن فلیٹ 2000 میں ظاہر کیا گیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ لندن فلیٹ ظاہر کیا گیا لیکن آف شور کمپنی کبھی ڈکلئیر نہیں کی گئی۔
اس موقع پر وکیل نعیم بخاری نے دلائل میں کہا کہ عمران خان آف شور کمپنی کے نہ بینیفشل مالک تھے اور نہ شیئر ہولڈر اس لیے ظاہر نہیں کی۔
حنیف عباسی کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ عمران خان تسلیم کر چکے ہیں کہ لندن فلیٹ خریدنے کے لئے نیازی سروسز بنائی گئی، نیازی سروسز لمیٹڈ کی ٹرانزیکشنز بتاتی ہیں کہ اس کے اصل مالک عمران خان ہیں، نیازی سروسز کبھی بھی کھوکھلی کمپنی نہیں رہی۔
وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ عمران خان کے کسی جواب میں تضاد نہیں اور انہوں نے کسی جواب سے یوٹرن نہیں لیا، جواب میں تبدیلی کی کوئی نشاندہی نہیں کی گئی تاہم کیس میں سوالات درخواست گزار نے نہیں عدالت نے اٹھائے۔
نعیم بخاری نے کہا کہ لندن فلیٹ کی منی ٹریل اور قیمت فروخت مانگی گئی اور ہم نے لندن فلیٹ ظاہر کرنے کی تفصیلات بھی عدالت کو دیں۔
عمران خان کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل سے 2002 کے اثاثے بتاتے ہوئے غلطی ہوسکتی ہے غلط بیانی نہیں اور 2002 کی غلط بیانی پر موجودہ الیکشن پر نااہلی مانگی گئی ہے تاہم عمران خان نے کچھ چھپایا ہوتا تو ریٹرننگ آفیسر کاغذات مسترد کرسکتا تھا اور عمران خان کے ریٹرن پر الیکشن کمیشن نے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔
سماعت کے دوران حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے دلائل میں کہا کہ عدالت نے عمران خان کو جواب میں تبدیلی کی اجازت نہیں دی لیکن عمران خان نے سماعت میں 18 مرتبہ مؤقف بدلا اور 18 سچ بولے۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ سچ بولنے کا فائدہ یہ ہےکہ آپ کو یاد نہیں رکھنا پڑتا کہ پہلے کیا کہا تھا، مجموعی تصویر سامنے رکھ کر دیکھنا ہے کہ بددیانتی ہوئی یا نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سچ کی تلاش کے لیے ہی یہ سماعت کر رہے ہیں اور یہ نہ سمجھا جائے کہ محفوظ فیصلہ کل آجائے گا۔
حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے دلائل میں کہا کہ پاناما کیس میں جسٹس کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم نے اپنے موقف بدلے، منتخب نمائندوں کو رعایت نہیں دی جاسکتی جب کہ عمران خان کا رویہ بتاتا ہے کہ عدالت کے سامنے وہ صادق اور امین نہیں جب کہ اکتوبر 2012 کا یورو اکاؤنٹ سے متعلق بیان بھی عدالت کے سامنے ہے۔
انہوں نے کہا کہ منتخب نمائندوں نے مقدس اختیار استعمال کرنا ہوتا ہے، اقتدار اللہ کی امانت ہے اور آئین کے مطابق حاکمیت اللہ کی ہے۔
عمران خان کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ اس کیس کا پاناما سے موازنہ کسی طور نہیں کیا جاسکتا، وہ وزیراعظم کا معاملہ تھا کہ تنخواہ اکاؤنٹ میں آتی رہی لیکن نکلوائی نہیں گئی لیکن عمران خان کے کیس میں رقم پاکستان سے باہر نہیں گئی۔
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ عمران خان نے اپنا یورو اکاؤنٹ کب اور کتنی رقم سے کھولا جس پر وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ یہ اکاؤنٹ تب کھولا گیا جب عمران خان ممبر قومی اسمبلی تھے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اثاثہ چھپانے اور غلطی میں فرق ہے، عمران خان نے اپنا یورو اکاؤنٹ ظاہر نہیں کیا، ہمارے سامنے بے شمار دستاویزات آئیں اور ہم حقائق اور سچ کا تعین سوال پوچھ کر کر رہے ہیں۔
جہانگیر ترین کے وکیل کے دلائل
جہانگیر ترین کے وکیل سکندر مہمند نے دلائل میں کہا کہ اکاؤنٹنگ مقاصد کے لئے آف شور کمپنیوں میں بچوں کو بینفیشل آنر ظاہر کیا جب کہ میں نے رضاکارانہ طور پر آف شور کمپنی ظاہر کی، ڈرافٹنگ میں غلطی پر عدالت سے معذرت چاہتا ہوں۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ٹرسٹ بچوں کا اثاثہ نہیں جب کہ حنیف عباسی کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ میں جہانگیر ترین بینفیشل آنر خود ہیں جب کہ ٹیکس ریٹرنز میں انہوں نے بچوں کو بینفیشل آنر دکھایا اور آف شور کمپنی کا ذکر ٹیکس ریٹرنز اور کاغذات نامزدگی میں نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بظاہر لگتا ہے کہ آف شور کمپنی کے بینفیشل مالک جہانگیر ترین ہیں جب کہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ میں یہ بات واضح ہے کہ 2 لائف ٹائم بینفیشری ہیں۔