16 نومبر ، 2017
اسلام آباد: نئی حلقہ بندیوں کے لیے آئینی ترمیم اور الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بل قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے جنہیں کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔
الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے لیے پیش کیے جانے والے ’’انتخابات ترمیمی بل 2017‘‘ کی قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد ختم نبوت سے متعلق حلف نامہ اصل شکل میں بحال ہوگیا جس کے بعد قادیانی، احمدی اور لاہوری گروپ کا آئین میں پہلے سے درج اسٹیٹس برقرار رہے گا۔
اسپیکر ایاز صادق کی زیرصدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی شرکت کی جبکہ مذکورہ دونوں بل وزیرقانون زاہد حامد نے ایوان کے سامنے پیش کیے۔
انتخابات ترمیمی بل پیش کرتے ہوئے وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ وہ دو حج اور کئی عمرے کرچکے ہیں اور ختم نبوت پر ان کا خاندان بھی قربان ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس بات پر اتفاق ہوا کہ انتخابات ترمیمی بل 2017 کے ذریعے ختم نبوت سے متعلق قانون کے آرٹیکل 7سی اور 7 بی کو اصل شکل میں بحال کیا جائے۔
انتخابات ترمیمی بل 2017 کے نکات کے مطابق احمدیوں کی حیثیت تبدیل نہیں ہوگی، ختم نبوت پرایمان نہ رکھنے والےکی حیثیت آئین میں پہلے سے درج والی ہوگی، ووٹرلسٹ میں درج کسی نام پرسوال اٹھے تو اسے15 دن کے اندر طلب کیا جائیگا، متعلقہ فرد اقرارنامے پر دستخط کرے گا کہ وہ ختم نبوت پرایمان رکھتا ہے، متعلقہ فرد اقرار نامے پر دستخط سے انکار کرے تو غیرمسلم تصور ہوگا اور ایسے فرد کا نام ووٹرلسٹ سے ہٹا کرضمنی فہرست میں بطورغیرمسلم لکھاجائیگا۔
بل میں ختم نبوت سے متعلق انگریزی اور اردو کے حلف نامے بھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کا تنازع اس وقت پیدا ہوا جب حکومت نے سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہل قرار دیے جانے والے سابق وزیراعظم نواز شریف کو دوبارہ مسلم لیگ (ن) کا صدر بنانے کی راہ ہموار کرنے کے لیے انتخابی اصلاحات بل 2017 منظور کیا اور یہ بات منظر عام پر آئی کہ اس بل کی منظوری کے دوران ختم نبوت کے حوالے سے حلف نامے کو تبدیل کردیا گیا ہے۔
مذہبی جماعتوں اور دیگر حلقوں کی جانب سے شدید مذمت کے بعد حکومت نے موقف اختیار کیا تھا کہ ایسا غلطی سے ہوگیا ہے اور حلف نامے کو اس کی اصل حالت میں بحال کردیا جائے گا جسے اب ترمیمی بل کے ذریعے بحال کردیا گیا ہے۔
نئی حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیم کا بل
نئی حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیم کا بل بھی قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا جس کی حمایت میں 242 ارکان جبکہ مخالفت میں صرف ایک رکن جمشید دستی نے ووٹ دیا۔
بل کو منظوری کے لیے 342 ارکان پر مشتمل ارکان میں سے کم سے کم 228 ارکان کی حمایت درکاری تھی۔ حالیہ ترمیم کے مطابق قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی البتہ پنجاب کی قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد کم ہوجائے گی کیوں کہ پاکستان کی کل آبادی میں پنجاب کا تناسب کم ہوکر 52 فیصد رہ گیا ہے جو 1998 کی مردم شماری کے مطابق 56 فیصد تھا۔
اس کے علاوہ پنجاب کی نشستوں میں جو کمی کی جائے گی اس میں سے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کو نشستیں ملیں گی جبکہ سندھ کی نشستوں کی تعداد میں کوئی رد و بدل نہیں ہوگا۔
ان دونوں بلوں کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس جمعے کی صبح ساڑھے 10 بجے تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔
نئی حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیم کے بل اور انتخابات ترمیمی بل 2017 کو اب منظوری کے لیے سینیٹ بھیجا جائے گا۔
بل پر اعتراضات
نئی حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیمی بل پر عوامی راج پارٹی کے رکن اسمبلی جمشید دستی نے مخالفت کی اور اس بل کے اغراض و مقاصد پر سوال اٹھایا۔
بل کی دوتہائی اکثریت سے منظوری کے بعد جمشید دستی نے کہا کہ وہ اس بل کے خلاف سپریم کورٹ جائیں گے۔
بل کو اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی سربراہی میں پارلیمانی جماعتوں کا ایک اجلاس بھی ہو اتھا جس میں اکثر جماعتوں نے بل کی حمایت پر اتفاق کیا تھا تاہم ایم کیو ایم کی جانب سے کچھ تحفظات ظاہر کیے گئے تھے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نے کراچی کے 10 بلاکس میں دوبارہ مردم شماری کا مطالبہ کیا تھا جس پر مسلم لیگ نواز کے رہنما اور وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے تجویز دی تھی کہ ایم کیو ایم کے تحفظات دور کرنے کے لیے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس دوبارہ بلایا جاسکتا ہے۔
خیال رہے کہ مردم شماری کے نتائج سامنے آنے کے بعد سندھ کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے خدشات سامنے آئے تھے۔ نئی حلقہ بندیاں ان ہی نتائج کے حساب سے بنائی جائیں گی۔
پیر کے روز وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے اجلاس میں سندھ نے نئی حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیم پر مشروط آمادگی پر اتفاق کیا تھا۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت ہونے والے سی سی آئی کے اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی سمیت الیکشن کمیشن اور ادارہ شماریات کے حکام نے بھی شرکت کی تھی۔
الیکشن کمیشن حکام نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ 1998 کی مردم شماری کے مطابق الیکشن کرانا مشکل ہو گا لہذا حکومت نئی حلقہ بندیوں کے لیے فوری طور پر قومی اسمبلی سے ترمیم منظور کروائے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اجلاس کے دوران کہا تھا کہ ہم مردم شماری نتائج اسی صورت میں قبول کریں گے جب ایک فیصد مردم شماری بلاکس کی تیسرے فریق سے تصدیق کرائی جائے اور اس حوالے سے عوامی خدشات دور کیے جائیں۔
سی سی آئی اجلاس میں سندھ حکومت کا مردم شماری ریکارڈ چیک اور تصدیق کا حق تسلیم کر لیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ تصدیق کے نتائج چیک کرانے کا فارمولا تمام صوبوں پر لاگو ہو گا۔