21 نومبر ، 2017
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے ریفرنس کی سماعت کے دوران ملزم اسحاق ڈار کو مفرور قرار دے دیا۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف نیب کی جانب سے دائر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے ریفرنس کی سماعت کی۔
عدالت نے اسحاق ڈار کو مفرور ملزم قرار دینے کی نیب کی استدعا منظور کرتے ہوئے ملزم کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا۔
احتساب عدالت نے اسحاق ڈار کے وکیل کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ اور ملزم کی غیر حاضری میں نمائندہ مقرر کرنے کی درخواست بھی مسترد کردی۔
فاضل جج محمد بشیر نے اسحاق ڈار کے ضامن احمد علی قدوسی کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے 24 نومبر تک تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا، عدالت نے ضامن سے استفسار کیا کہ کیوں نہ 50 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے ضبط کر لئے جائیں۔
عدالت نے اسحاق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی مزید سماعت 4 دسمبر تک کے لئے ملتوی کردی۔
فریقین وکلا کے دلائل
سماعت شروع ہوئی تو اسحاق ڈار کے وکیل حسین فیصل مفتی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسحاق ڈار نے ریحان رشید کے نام پاور آف اٹارنی بھجوایا اور انہیں اپنا نمائندہ مقرر کرنے کا اختیار دیا ہے، اگر ضرورت ہو تو اسحاق ڈار آڈیو یا ویڈیو لنک پر دستیاب ہو سکتے ہیں۔
اسحاق ڈار کے وکیل کی جانب سے تیسری میڈیکل رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی گئی جس کے مطابق اسحاق ڈار کے دل کی ایک شریان درست کام نہیں کر رہی جس پر انہیں علاج کے لئے 27 نومبر کو دوبارہ طبی معائنے کے لئے بلایا گیا ہے۔
اسحاق ڈار کے وکیل حسین فیصل مفتی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اب تک پیش کی گئی تینوں میڈیکل رپورٹس میں کوئی تضاد نہیں، ڈاکٹر نے اسحاق ڈار کو بین الاقوامی سفر سےمنع کیا ہے جس کا ذکر میڈیکل رپورٹ میں موجود ہے۔
اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق نے میڈیکل رپورٹ کی مخالفت کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ برطانیہ کے ڈاکٹر کی میڈیکل رپورٹ برطانوی قوانین کے مطابق بھی نہیں ہے۔
اسحاق ڈار کے وکیل نے کہا کہ عدالت نے 8 نومبر کو میڈیکل سرٹیفکٹ کی تصدیق کا حکم دیا جس پر عمل نہیں کیا گیا، میڈیکل رپورٹ کی برطانیہ سے تصدیق نہ کروانا نیب کی بدنیتی ظاہر کرتا ہے۔
اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ میڈیکل رپورٹ تصدیق کے لئے بذریعہ فارن آفس بھجوائی جا چکی ہے۔
نیب کی جانب سے اسحاق ڈار کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کی رپورٹ عدالت میں جمع کرا گئی جس میں کہا گیا ہے کہ وارنٹ کی تعمیل کے لئے لاہور اور اسلام آباد میں رہائش گاہوں پر چھاپے مارے لیکن ملزم اہل خانہ کے ہمراہ بیرون ملک فرار ہو چکا ہے۔
نیب رپورٹ میں بتایا گیا کہ گلبرگ لاہور میں اسحاق ڈار کی رہائش گاہ پر مالی کے سوا کوئی نہیں تھا جس نے اسحاق ڈار کے وارنٹ گرفتاری موصول کیے۔
جج محمد بشیر نے سوال کیا کہ آپ نے لاہور میں اسحاق ڈار کے مالی کو وارنٹ کی اطلاع دی، کیا پتا تصور حسین مزید 10 گھروں کا مالی ہو۔
جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مالی نے بتایا کہ ڈھائی سال کے دوران کبھی اسحاق ڈار کو نہیں دیکھا۔
نیب کی کارروائی
احتساب عدالت کی جانب سے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے جانے کے بعد نیب نے ملزم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے وزارت داخلہ کو درخواست بھیجی ہے۔
نیب کی درخواست پر وزارت داخلہ کی تین رکنی کمیٹی کی جانب سے اسحاق ڈار کا نام ای سی ایل میں ڈالنے سے متعلق فیصلہ آئندہ چند روز میں کئے جانے کا امکان ہے۔
کیس کا پس منظر
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے پاناما کیس فیصلے کی روشنی میں نیب نے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا ریفرنس دائر کیا ہے۔
سپریم کورٹ کی آبزرویشن کے مطابق اسحاق ڈار اور ان کے اہل خانہ کے 831 ملین روپے کے اثاثے ہیں جو مختصر مدت میں 91 گنا بڑھے۔
27 ستمبر کو احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثوں کے نیب ریفرنس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر فرد جرم عائد کی تھی تاہم اسحاق ڈار نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار 7 مرتبہ احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئے، جبکہ 5 سماعتوں پر وہ غیر حاضر رہے۔