25 نومبر ، 2017
اسلام آباد: فیض آباد انٹرچینج پر دھرنے کے خلاف سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران مظاہرین سے جھڑپوں میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 201 افراد زخمی ہوگئے جب کہ پولیس نے متعدد مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔
انتظامیہ کے آپریشن کے بعد مظاہرین مختلف علاقوں میں پھیل گئے اور ہنگامہ آرائی شروع کردی، صبح سے جاری آپریشن کو دوپہر ڈھائی بجے سے معطل کردیا گیا جس کے بعد اسلام آباد میں صورتحال کشیدہ ہے اور مظاہرین اب بھی مختلف مقامات پر موجود ہیں۔
وفاقی دارالحکومت میں امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے وزارت داخلہ کی درخواست پر اسلام آباد میں فوج طلب کرلی گئی ہے۔
وزارت داخلہ نے دارالحکومت میں فوج کی طلبی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا جس کے مطابق فوج کی تعیناتی فوری طور پر ہوگی اور وہ تاحکم ثانی دارالحکومت میں تعینات رہے گی۔
اسلام آباد میں فوج کی طلبی آئین کے آرٹیکل 245، انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشنز 5-4 اور تعزیرات پاکستان کے سیکشن 131 اے کے تحت کی گئی۔ اسلام آباد کے تمام حساس علاقوں میں فوجیوں کی معقول تعداد تعینات کی جائے گی اور دستوں کی تعداد کا فیصلہ کمانڈر 111 بریگیڈ کریں گے۔
اسلام آباد میں فوج کی تعیناتی کے حوالے سے وزارت داخلہ کو جوابی مراسلہ لکھا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مظاہرین سے نمٹنے کے لئے پولیس کو اس کی پوری صلاحیت کے مطابق استعمال نہیں کیا گیا۔
وزارت داخلہ کو بھیجے گئے مراسلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پولیس کے ساتھ رینجرز کو طے ہونے کے باوجود تحریری احکامات جاری نہیں کیے گے۔
مراسلے میں کہا گیا ہے کہ فوج تفویض کا کام انجام دینے کے لیے تیار مگر ہنگامہ ختم کرنے کے لیے فوج کی تعیناتی کے لیے چند امور کا واضح ہونا ضروری ہے۔
وزارت داخلہ کو لکھے گئے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے فوج روایتی طور پر استعمال نہیں کی جاتی جب کہ اعلیٰ عدلیہ نے آپریشن کے خاتمے کے لیے آتشی اسلحے کے استعمال سے گریز کی ہدایت کی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فوج طلب کرنے کا فیصلہ وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے کیا۔
قبل ازیں آرمی چیف نے وزیراعظم کو دھرنے کا معاملہ پر امن طریقے سے حل کرنے کی تجویز دی تھی۔
راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا دینے والے مظاہرین کی قیادت نے اب صرف وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نہیں بلکہ پوری وفاقی کابینہ کے استعفے کا مطالبہ کردیا ہے۔
راولپنڈی اور اسلام آباد میں اسٹیج سے دھرنا قائدین کی جانب سے اعلانات کیے گئے کہ ہماری طرف سے کوئی پیر یا عالم مذاکرات کی پیشکش نہ کرے، اب مذاکرات شہدا کی تدفین کے بعد ہوں گے۔
دھرنا قائدین کی جانب سے کہا گیا ہے کہ حکومت کے پیچھے لابی ہے، اب ہماری اپنی کمیٹی مذاکرات کا فیصلہ کرے گی، راولپنڈی اور اسلام آباد انتظامیہ نے دھرنے کا جو نقصان پہنچایا اس کا بدلہ لیں گے۔
وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کی زیرصدارت اسلام آباد میں اہم اجلاس ہوا جس میں فیض آباد دھرنے کے خلاف ایکشن کے بعد کی صورت حال پر غور کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس نے دھرنا مظاہرین کے خلاف دوبارہ آپریشن کی مخالفت کی ہے۔ ذرائع کے مطابق دو گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے اجلاس میں دھرنا مظاہرین کے خلاف آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے کوئی مثبت نتیجہ نہ نکل سکا۔
اجلاس میں کوئی نتیجہ نہ نکلنے کے بعد اب وزیرداخلہ احسن اقبال دھرنے کے حوالے سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے مشاورت کریں گے۔ اجلاس میں چیف کمشنر اسلام آباد، آئی جی پولیس، ڈسٹرکٹ کمشنر اور دیگر حکام نے شرکت کی۔
وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ کی جانب سے فیض آباد انٹرچینج پر دھرنے کے شرکاء کو دی گئی گذشتہ رات 12 بجے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد ہفتے کی صبح مظاہرین کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا گیا۔
آپریشن میں پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری نے حصہ لیا، جنہوں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے وقفے وقفے سے آنسو گیس کی شیلنگ اور واٹر کینن کا استعمال کیا جب کہ اس دوران متعدد مظاہرین کو گرفتار بھی کرلیا گیا۔
آپریشن کے دوران مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ اور غلیل کے ذریعے بنٹوں کا بھی استعمال کیا گیا جس سے پولیس اور ایف سی کے اہلکار زخمی ہوگئے جنہیں طبی امداد کے لیے پولی کلینک اور بے نظیر اسپتال منتقل کیا گیا۔
اسلام آباد اور راولپنڈی کے مختلف اسپتالوں میں 201 سے زائد زخمیوں کو لایا گیا، جن میں 61 پولیس ، 47 ایف سی اہلکار اور 50 عام شہری شامل ہیں۔
مظاہرین نے ایک ایف سی اہلکار کو پکڑ کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا لیکن ساتھی اہلکاروں نے اسے فوری طور پر مظاہرین کے قبضے سے چھڑا لیا۔
پمز اسپتال کے مطابق زخمیوں میں اسسٹنٹ کمشنر عبدالہادی، ڈی ایس پی عارف شاہ، ایس ایچ او تھانہ آئی نائن اور ایس ایچ او تھانہ بنی گالہ بھی شامل ہیں۔
پولی کلینک اور بینظیر اسپتال میں ایمرجنسی نافذ کرکے چھٹی پر موجود پیرا میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹرز کو طلب کرلیا گیا۔
آپریشن کے دوران پولیس نے پانچ سمت سے کارروائی کرتے ہوئے مری روڈ، راولپنڈی روڈ، کھنہ پل، اسلام آباد ایکسپریس وے، جی ٹی روڈ کی جانب سے پیش قدمی کرکے فیض آباد کو مظاہرین سے خالی کروانے کی کوشش کی۔
مظاہرین نے پولیس کی 10 گاڑیوں کو آگ لگادی جب کہ بارہ کہو کے مقام پر مری جانے والے راستے اور کنونشن سینٹر پر مری آنے جانے والے راستے کو بھی بند کردیا۔
فیض آباد اور ملحقہ علاقوں میں بجلی اور انٹرنیٹ سروس بھی بند کردی گئی۔
پولیس کی شیلنگ سے قریب موجود دفاتر میں کام کرنے والوں کو بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ مری روڈ پر اسکول بند کروا دیئے گئے۔
موٹروے پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ مشتعل مظاہرین نے موٹروے اور راولپنڈی ایکسپریس وے کو بھی بلاک کردیا، جس سے ٹریفک کی روانی میں خلل پڑا۔
مشتعل مظاہرین نے سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے گھر کا گیٹ توڑ دیا جس کے بعد ذرائع کے مطابق ان کے گھر کی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں نے سابق وزیر داخلہ کو بکتر بند گاڑی میں بٹھا کر محفوظ مقام پر منتقل کیا لیکن مظاہرین بکتر بند گاڑی پر بھی پتھر برساتے رہے۔ تاہم چوہدری نثار کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سابق وزیر داخلہ کو بکتر بند گاڑی کے ذریعے منتقل کرنے کی خبر درست نہیں اور وہ پہلے ہی اسلام آباد منتقل ہوچکے تھے۔
مظاہرین نے چوہدری نثار کے گھر کے گیٹ کو آگ لگادی جب کہ قریب ہی پلازہ اور نجی ٹی وی چینل کی ڈی ایس این جی کو بھی نذر آتش کردیا۔
پسرور کے علاقے ککے زئی میں مشتعل افراد نے وزیر قانون زاہد حامد کے گھر پر حملہ کردیا اور گھر میں داخل ہوکر توڑ پھوڑ کی۔ پولیس کا کہنا ہےکہ حملے کے وقت زاہد حامد گھر پر نہیں تھے۔
مظاہرین نے شیخوپورہ میں بھی مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے جاوید لطیف کے ڈیرے پر حملہ کردیا۔ جاوید لطیف کا کہنا ہے کہ مشعل افراد نے پانچ افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
پولیس کا کہناہےکہ جاوید لطیف کے گھر پر حملہ نہیں ہوا، جاوید لطیف مظاہرین سے مذاکرات کے لیے گئے تو اس دوران دھکم پیل ہوئی لیکن انہیں بحفاظت گھر پہنچا دیا گیا۔
وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے سرکاری ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فیض آباد آپریشن عدالتی احکامات پر شروع کیا گیا کیونکہ عدالتی احکامات کی بجا آوری سےانکار نہیں کرسکتے، انتظامیہ کا فرض ہے کہ عدالتی احکامات پر مکمل عملدرآمد کرے لہٰذا انتظامیہ نے ہر ممکن کوشش کہ کہ جان و مال کا نقصان نہ ہو۔
انہوں نے کہاکہ دھرنے والوں کے پاس آنسو گیس کے شیل ہیں جو انہوں نے فورسز پر پھینکے، دھرنے والے اتنے سادہ نہیں، ان کے پاس کچھ ایسی چیزیں اور وسائل ہیں جو ریاست کےخلاف استعمال ہوتے ہیں اور اس کو دیکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی بنانا ہے۔
پاکستان الیکٹرانک میڈیا اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے میڈیا کو فیض آباد آپریشن کی لائیو کوریج سے روکتے ہوئے تمام نیوز چینلز کو آف ایئر کرنے کا حکم دے دیا۔
پیمرا نے حکم دیا کہ میڈیا کوڈ آف کنڈکٹ 2015 کے تحت آپریشن کی لائیو کوریج بند کرے۔
اسلام آباد آپریشن کے دوران پی ٹی اے نے ملک بھر میں انٹرنیٹ براؤزر کے ذریعے فیس بک، یوٹیوب اور ٹویٹر کو بھی بند کردیا۔
اسلام آباد آپریشن کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں پرتشدد مظاہرے کیے گئے۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں مظاہروں کے دوران فائرنگ اور پتھراؤ سے 21 افراد زخمی ہوئے جن میں دو پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ پنجاب کے مختلف شہروں، گوجرنوالہ، فیصل آباد، سیالکوٹ، سمبڑیال اور حافظ آباد میں پرتشدد مظاہرے کیے گئے۔ حافظ آباد میں مظاہرے کے دوران فائرنگ سے ایک شخص جاں بحق ہوگیا۔
کراچی میں مظاہرین کے پتھراؤ اور تشدد سے جیو نیوز کے دو صحافی زخمی ہوگئے، رپورٹر طارق ابوالحسن کو سہراب گوٹھ میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہوگئے اور انہیں اسپتال منتقل کیا گیا۔
اس کے علاوہ رپورٹر طلحہٰ ہاشمی بھی نرسری میں مظاہرین کے تشدد سے زخمی ہوئے ہیں، اسلام آباد میں مشتعل مظاہرین نے سماء ٹی وی کی ڈی ایس این جی وین کو آگ لگادی۔
پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن (پی بی اے) نے مظاہرے کی کوریج کے دوران صحافیوں پر ہونے والے حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔
پی بی اے کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں اور میڈیا کی گاڑیوں پر حملے ناقابل برداشت ہیں، صحافیوں کی ذمہ داری ریاست کی ذمہ داری ہے، حکومت کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔
پی بی اے نے کراچی میں صحافیوں پر حملے، فیض آباد اور لاہور میں میڈیا کی گاڑیوں پر حملے کی پرزور الفاظ میں مذمت کی جبکہ ایسوسی ایشن نے صحافیوں کو ہدایات کیں کہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران ہر طرح کے حفاظتی اقدامات کو ملحوظ خاطر رکھیں۔
سی پی این ای نے پیمرا کی جانب سے نیوز چینلز کی بندش پر اظہار مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نیوز چینلز کی نشریات بحال کرکےعوام کو ہیجان کی کیفیت سےنکالے۔
آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) نے بھی پیمرا کے حکم پر نیوزچینلز کی اچانک بندش پر اظہار تشویش کیا اور کہا کہ دھرنے کیخلاف پولیس آپریشن کی براہ راست کوریج پر چینلز کی بندش قابل مذمت ہے۔
اے پی این ایس کے بیان میں مزید کہا گیا کہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرکے مقاصد حاصل کئےجاسکتےتھے، چینلز کی اچانک بندش سے عوام میں کنفیوژن اور افواہیں پھیلیں۔
اے پی این ایس نے مطالبہ کیا کہ آزادی اظہار پر پابندی کے کسی اقدام کا نتیجہ برعکس نکلتا ہے لہٰذا وفاقی حکومت پیمرا کے حکم پر عمل درآمد فوری رکوائے۔ حکومت اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرکے آپریشن کی کوریج کے رہنمااصول بنائے۔
گذشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے تین دن میں دھرنا پریڈ گراؤنڈ منتقل کرنے کے حکم کےبعد ضلعی انتظامیہ نے دھرنے کے شرکاء کو آخری وارننگ جاری کی تھی۔
ضلعی انتطامیہ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ دھرنے کے شرکاء 2 ہفتے سے غیر قانونی طور پر فیض آباد میں بیٹھے ہیں، پہلے بھی شرکاء کو تین وارننگ کے نوٹس جاری کیے جاچکے ہیں لہٰذا شرکاء رات 12 بجے تک فیض آباد خالی کردیں۔
انتظامیہ کی وارننگ میں مزید کہا گیا تھا کہ ہائیکورٹ کے حکم پر پریڈ گراؤنڈ جلسے اور جلوسوں کے لیے مختص ہے، دھرنے کے شرکاء 2 ہفتے سے مسلسل قانون کی خلاف ورزی کررہے ہیں اس لیے جمعے کی رات 12 بجے تک فیض آباد خالی نہ کیا گیا تو ایکشن ہوگا اور آپریشن کی صورت میں تمام ذمے داری دھرنے کے قائدین اور شرکاء پر ہوگی۔
حکومت اور دھرنے کے شرکاء کے درمیان مذاکرات کامیاب نہ ہونے سے شہری دو ہفتوں سے زائد سے مشکلات کا شکار ہیں۔
کئی اہم شاہراہوں کو کنٹینر لگا کر بند کیا گیا ہے جس کی وجہ سے شہریوں کو متبادل راستوں پر ٹریفک جام جیسے مسائل کا سامنا ہے، گذشتہ کئی روز سے میٹرو بس سروس بھی معطل ہے جب کہ فیض آباد اور اطراف کے دکاندار بھی شدید پریشان ہیں۔
اسکول و کالج جانے والے طلبا و طالبات کو طویل سفر طے کرکے اپنی منزل پر پہنچنا پڑتا ہے، اسی طرح دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین بھی شدید پریشان ہیں۔
واضح رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کو ملانے والے فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت 'تحریک لبیک'کا دھرنا گزشتہ 19 روز سے جاری تھا اور دھرنے کے شرکاء وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے پر بضد تھے جب کہ حکومت کا مؤقف ہےکہ سڑکوں پر بیٹھ کر یا دھونس دھاندلی سے کسی سے استعفیٰ نہیں لیا جاسکتا۔