28 نومبر ، 2017
روہنگیا مسلمانوں پر ریاستی مظالم کے حوالے سے خاموشی اختیار کرنے پر میانمار کی نوبیل انعام یافتہ جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی سے فریڈم آف آکسفورڈ ایوارڈ باقاعدہ طور پر واپس لے لیا گیا۔
دی گارجین کی ایک رپورٹ کے مطابق آکسفورڈ کی سٹی کونسل نے آنگ سان سوچی کو 1997 میں دیا گیا یہ ایوارڈ مستقل طور پر واپس لینے کے سلسلے میں متفقہ طور پر ووٹ دیا اور کہا کہ تشدد کے معاملے پر آنکھیں بند کرنے والے افراد کو اعزاز دینے سے آکسفورڈ پر کلنک کا ٹیکہ لگ رہا ہے۔
اس سے قبل رواں برس اکتوبر میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم پر خاموشی اختیار کرنے پر آکسفورڈ کی سٹی کونسل نے آنگ سان سوچی سے فریڈم آف آکسفورڈ ایوارڈ واپس لینے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی تھی، جسے پیر (27 اکتوبر) کو ووٹنگ کے بعد باقاعدہ طور پر واپس لے لیا گیا۔
واضح رہے کہ میانمار میں ڈکٹیٹرشپ کے خلاف آزادی کی مہم چلانے پر آکسفورڈ کونسل نے 1997 میں آنگ سان سوچی کو فریڈم ایوارڈ سے نوازا تھا۔
اس سے قبل آنگ سان سوچی نے آکسفورڈ کے جس کالج میں تعلیم حاصل کی تھی اس نے ان کا پوٹریٹ ہٹا دیا تھا جب کہ برطانیہ کے دیگر اداروں نے بھی آنگ سانگ سوچی کو دیے گئے اعزازات واپس لینے پر غور شروع کردیا ہے۔
برطانیہ کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین 'یونیسن' نے بھی آنگ سان سوچی کو دی گئی اعزازی ممبرشپ واپس لینے کا اعلان کیا تھا اور ان پر زور دیا گیا تھا کہ وہ روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کو روکنے کے لیے کردار ادا کریں۔
آکسفورڈ سٹی کونسل نے یہ ووٹنگ اسی روز کی، جب میانمار کے طاقتور آرمی چیف نے پوپ فرانسس کو بتایا کہ ملک میں کوئی مذہبی امتیاز نہیں برتا جا رہا۔
واضح رہے کہ رواں برس اگست میں میانمار کی ریاست رخائن میں فوج کے کریک ڈاؤن کے باعث ہزاروں روہنگیا مسلمان جان بچا کر نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
روہنگیا مسلمانوں کو میانمار کی بدھ مت اکثریتی آبادی کی جانب سے نفرت کا سامنا ہے، جنہیں میانمار میں غیر قانونی طور پر مقیم 'بنگالی' پناہ گزین تصور کیا جاتا ہے۔
فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والے پر تشدد واقعات پر عالمی سطح پر نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔